میر بارہا گورِ دل جھنکا لایا ۔ میر تقی میرؔ

فرخ منظور

لائبریرین
بارہا گورِ دل جھنکا لایا
اب کے شرطِ وفا بجا لایا

قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا

دل کہ اِک قطرہ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بلا لایا

سب پہ جس بار نےگِرانی کی٭
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا

ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

(میر تقی میرؔ)

٭ آسماں بارِ امانت نتو انست کشید
قرعۂ فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
(حافظ شیرازی)
 
آخری تدوین:
Top