کاشفی

محفلین
غزل
(ذوقی)

بارہا ہجر میں یوں ہم نے اُنہیں یا دکیا
جسم کو روح کیا، روح کو فریاد کیا

اس لگاوٹ سے نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
روح کو کشمکش یاس سے آزاد کیا

اس نے اس حسنِ تبسم سے نگاہیں ڈالیں
سب یہ سمجھے کہ سرِ بزم کچھ ارشاد کیا

میں نے کس دن قفس غم سے رہائی چاہی
میں نے کب شکوہء بے مہری صیاد کیا

اُس سے پوچھے کوئی آغازِ محبت کے مزے
جس کے دل کو غم ِ انجام سے برباد کیا

بعد مدت کے خط آیا ہے کسی کا ذوقی
خیر اتنا بھی غنیمت ہے کہ اَب یاد کیا
 

کاشفی

محفلین
شکریہ محمد وارث صاحب!
شکریہ سخنور صاحب!
شکریہ الف عین صاحب!


اس غزل کا ماخد رسالہ نگار اگست 1928ء ہے۔۔۔ شاعر کا نام ذوقی لکھاہوا ہے۔
 
Top