بار یادوں کا ہی سجاد اٹھا لاتے ہو

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

آنکھ لگتی ہے تو خوابوں میں چلے اتے ہو
آنکھ کھلتے ہی تخیل میں جگہ پاتے ہو

ہے رگ و پے میں رواں صرف تمھاری خوشبو
اس طرح تم مرے تن من میں سما جاتے ہو

یہ ادا آپ کی مدہوش کِیے دیتی ہے
زلف لہرا کے سرِ بزم جو اتراتے ہو

منہ سے اقرارِ محبت, تو نہیں کرتے مگر
اپنے ہونٹوں پہ تبسم لئے شرماتے ہو


میری سانسوں کی ضمانت ہے تمھاری قربت
پھر بھلا کیوں مرے پاس آنے سے گھبراتے ہو

مرمریں ہاتھ کو ہونٹوں پہ نہ رکھو ایسے
کیوں تبسم کو چھپا کر مجھے تڑپاتے ہو


جب بھی جاتے ہو تخیل کی وسیع وادی میں
بار یادوں کا ہی سجاد اٹھا لاتے ہو
 
ہے رگ و پے میں رواں صرف تمھاری خوشبو
اس طرح تم مرے تن من میں سما جاتے ہو
خشبو کے لیے رواں کہنا شاید مناسب نہ ہو. رواں کو رچی یا بسی کیا جا سکتا ہے، وزن کا مسئلہ نہیں ہوگا.
لیکن اصل مسئلہ دونوں مصرعوں کے ٹینسسز کا گڑبڑانا ہے. پہلے مصرعے میں ماضی قریب کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ دوسرے میں فعل حال ہے.

یہ ادا آپ کی مدہوش کِیے دیتی ہے
زلف لہرا کے سرِ بزم جو اتراتے ہو
شترگربہ در آیا ہے.

میری سانسوں کی ضمانت ہے تمھاری قربت
پھر بھلا کیوں مرے پاس آنے سے گھبراتے ہو
دوسرے مصرعے کو اگر یوں کر دیا جائے؟
اور اک تم ہو کہ پاس آنے سے گھبراتے ہو

مرمریں ہاتھ کو ہونٹوں پہ نہ رکھو ایسے
کیوں تبسم کو چھپا کر مجھے تڑپاتے ہو
عمدہ شعر ہو سکتا ہے، مگر ایک مسئلہ ہے. مرمریں بانہوں کے لیے کہا جاتا ہے، ہاتھوں کے لیے نازک، حسین جیسے اوصاف زیادہ مناسب ہیں.
 
خشبو کے لیے رواں کہنا شاید مناسب نہ ہو. رواں کو رچی یا بسی کیا جا سکتا ہے، وزن کا مسئلہ نہیں ہوگا.
لیکن اصل مسئلہ دونوں مصرعوں کے ٹینسسز کا گڑبڑانا ہے. پہلے مصرعے میں ماضی قریب کا صیغہ استعمال ہوا ہے جبکہ دوسرے میں فعل حال ہے.


شترگربہ در آیا ہے.


دوسرے مصرعے کو اگر یوں کر دیا جائے؟
اور اک تم ہو کہ پاس آنے سے گھبراتے ہو


عمدہ شعر ہو سکتا ہے، مگر ایک مسئلہ ہے. مرمریں بانہوں کے لیے کہا جاتا ہے، ہاتھوں کے لیے نازک، حسین جیسے اوصاف زیادہ مناسب ہیں.
کوشش کرتا ہوں راحل بھائی
 
Top