بازارِ حُسن آج سرِ عام لگ گیا ہے غزل نمبر 61 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
بازارِ حُسن آج سرِ عام لگ گیا ہے
دربارِ عاشقاں بھی سرِ شام لگ گیا ہے

آنکھیں ہماری سرخ ہوئیں ہجرِ یار میں
بیکار ہی مے نوشی کا الزام لگ گیا ہے

اس شہر میں عشاق کا آنا ہی منع ہے
یہ اشتہار ہر گلی ہر گام لگ گیا ہے

سب ہار گئے ان کی محبت میں ہم فقیر
جتنا جمع کیا تھا وہ تمام لگ گیا ہے

عزت بڑی ہے خوب ہماری جہان میں
جب سے تمہارا نام میرے نام لگ گیا ہے

ہم بھولنا بھی چاہے تو بھول نہیں پاتے
دل میں تیری یادوں کا اژدہام لگ گیا ہے

دھمکی مجھے وہ افشائے راز کی دیتے ہیں
دشمن کے ہاتھ میرا پیغام لگ گیا ہے

پردیس گیا آج تک لوٹا نہیں وہ شخص
شاید کسی انگریز کا غلام لگ گیا ہے

آنکھوں میں خوشی دیدنی ہے آنسوؤں کے ساتھ
لگتا ہے کہ مزدور کا کچھ کام لگ گیا ہے

ناکام عشق میں ہوا تب آیا خدا یاد
مسجد میں آج شخص وہ امام لگ گیا ہے


رشوت سے باز آئیں گے نہ بے حیا یہ لوگ
کیوں کہ لبوں سے ان کے حرام لگ گیا ہے

شاید کسی عاشق کی میت کا ہے تماشہ
نہ جانے کیوں یہ مجمع عوام لگ گیا ہے

شارؔق بہت مسرور ہو کوئی سبب تو ہے
محبوب کی ہے دید یا انعام لگ گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
لگ گیا تک ردیف ہو تو اکثر دوسرے مصرعے مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن میں آ جاتے ہیں، 'ہے' اضافی ہے۔ پہلے مصرع زیادہ تر کسی بحر میں نہیں
 

امین شارق

محفلین
بازارِ حُسن آج سرِ عام لگ گیا
دربارِ عاشقاں بھی سرِ شام لگ گیا

آنکھیں ہماری سرخ ہوئیں ہجرِ یار میں
بیکار ہی مے نوشی کا الزام لگ گیا

اس شہر میں عشاق کا آنا ہی منع ہے
یہ اشتہار ہر گلی ہر گام لگ گیا

سب ہار گئے ان کی محبت میں ہم فقیر
جتنا جمع کیا تھا وہ تمام لگ گیا

عزت بڑی ہے خوب ہماری جہان میں
جب سے تمہارا نام میرے نام لگ گیا

ہم بھولنا بھی چاہے تو بھول نہیں پاتے
دل میں تیری یادوں کا اژدہام لگ گیا

دھمکی مجھے وہ افشائے راز کی دیتے ہیں
دشمن کے ہاتھ میرا پیغام لگ گیا

پردیس گیا آج تک لوٹا نہیں وہ شخص
شاید کسی انگریز کا غلام لگ گیا

آنکھوں میں خوشی دیدنی ہے آنسوؤں کے ساتھ
لگتا ہے کہ مزدور کا کچھ کام لگ گیا

ناکام عشق میں ہوا تب آیا خدا یاد
مسجد میں آج شخص وہ امام لگ گیا

رشوت سے باز آئیں گے نہ بے حیا یہ لوگ
کیوں کہ لبوں سے ان کے حرام لگ گیا

شاید کسی عاشق کی میت کا ہے تماشہ
نہ جانے کیوں یہ مجمع عوام لگ گیا

حیران کیوں ہو تم مجھے رندوں میں دیکھ کر
کھجور کے درخت پہ کیا آم لگ گیا

انکار ہی ملتا ہے سب خواہشوں پہ میری
میری ہر ایک آرزو پر لام لگ گیا

سازش میں ہیں لگے دشمن میرے خلاف
بی مینڈکی کو آج پھر زکام لگ گیا

شارؔق بہت مسرور ہو کوئی سبب تو ہے
محبوب کی ہے دید یا انعام لگ گیا
 
Top