سید شہزاد ناصر
محفلین
چاول کی فصل ملکی معیشت میں زیردست اہمیت کی حامل ہے جس میں غذائی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ 5 ارب ڈالر سے زیادہ غیر ملکی زرمبادلہ حاصل کرنے کی صلاحیت Potential موجود ہے۔ جبکہ اس کی اعلیٰ قسم باسمتی کو نفاست، خوشبو اور ذائقہ کے لحاظ سے دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل ہے لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ چاول کی اس نادر قسم (Variety) کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے جو ایک اقتصادی المیہ ہوگا خدانخواستہ۔ بھارت اس خلا کو پر کرنے کے لیے کمتر کوالٹی کی وارئٹی کے ساتھ عالمی مارکیٹ پر تسلط جمانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہاہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے ذمہ دار اداروں یعنی زرعی تحقیق کے مراکز زراعت، تجارت اور خزانہ کی وزارتوں کی کارکردگی میں مسئلہ کی سنگینی کا احساس تک نظر نہیں آرہا۔ کسی بھی جنس کی بقا اور ارتقا کے لیے تین جہتوں میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ (1) ترقی دادہ بیجوں کی دریافت (2) ضروریات کاشت کی با آسانی فراہمی (3) مارکیٹنگ کا بہتر نظام۔ جدید تحقیق کی روشنی میں ایسا بیج دریافت کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے جو کوالٹی کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ پیداوار دینے کے ساتھ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی رکھتا ہو لیکن اس ضمن میں کام کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ ایک عرصہ سے سامنے نہیں آرہا۔ موجودہ باسمتی جسے سپریا کرنل باسمتی کا نام دیا جاتا ہے ارتقا کے مراحل سے گزر کر اس مقام پر پہنچی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے اور کافی عرصہ بعد تک باسمتی 370 کاشت ہوتی رہی جس کی کوالٹی تو اچھی تھی لیکن لمبے اور کمزور تنے کی وجہ سے فی ایکٹر پیداوار 25 من سے نہیں بڑھ پائی تھی۔ چنانچہ چاول کے تحقیقاتی مراکز بالخصوص کالاشاہ کاکو کے سب سے پرانے مرکز کاوش سے گزشتہ صدی کے او آخر میں قریباً دگنی پیداوار دینے والا بیج سپر باسمتی کے نام سے دریافت کیا گیا جو بیک وقت کاشتکاروں تاجروں اور صارفین میں بہت مقبول ہوا۔ اب 20,18 سال کے بعد اس کی پیداواری صلاحیت بہت بری طرح متاثر ہوچکی ہے اس دوران میں زرعی سائنس دانوں پر لازم تھا اور ارباب اختیار پر بھی اتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ متبادل بیج لانے کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا چنانچہ بھارت سے آیا ہوا بیج انڈیا باسمتی کے نام سے وسیع پیمانہ پر متعارف ہورہا ہے جس کی یداوار اگرچہ مقابلتاً زیادہ ہے مگر سپر باسمتی کے اعلیٰ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ دراصل یہ قدرت کا عطیہ ہے جو مخصوص آب وہوا اور زمینی ساخت کی صورت میں پاکستان کے لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن کے بعض علاقوں کو ہی ملا ہے جو بالعموم کالر کے نام سے معروف ہیں کہ اس سرزمین پر پیدا ہونے والے اعلیٰ چاول کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ زرعی سائنس دانوں کو مناسب سہولتیں فراہم کرکے یہ ٹاسک دیا جائے کہ سپرباسمتی کو ارتقائی مراحل سے گزار کر ایسا بیج دریافت کریں جو کولٹی برقرار رکھتے ہوئے کمتر محنت واخراجات کے ساتھ بھر پور پیداوار دے سکے۔ زرعی ماہرین کے ساتھ متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔
زرعی ضروریات کی فراہمی:
پیداوار میں زیادہ اضافہ کی خاطر ضروریات کاشت کی باآسانی فراہمی ناگزیر ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دھان کی کاشت کے لیے پانی، کھاد، ادویہ انتہائی گراں قیمت پر دستیاب ہورہی ہیں بہری پانی کی شدید قلت کے باعث بجلی، ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلوں سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ گزشتہ سیزن میں بجلی کے زبردست بحران کے باعث ڈیزل انجن لگانے کی مجبوری لاحق ہوئی ڈیزل کا نرخ 115/- روپے لیٹر ہوجانے کے بعد غریب کسانوں کو روزانہ ہزاروں کے خرچ کے زیر بار ہونا پڑا جوان کی بساط سے باہر تھا۔ کھاد اور ادویہ کے نرخ مقرر کرنے کی پہلی ہی فیکٹری مالکان اور بڑے ڈیلروں کو کھلی چھٹی ہے کہ بجلی اور گیس کے سنگین بحران نے ان کو بیانہ فراہم کیا جو جلتی پر تیل کے مترادف تھا چنانچہ من مالی قیمت وصول کی گئی ان حد سے بڑھے ہوئے اخراجات کاشت کو کنٹرول کرنے کے لیے معقول اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے یہ امرارباب حل وعقد کی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔
مارکیٹنگ نظام کی اصلاح:
دور حاضر میں پیداوار کی مارکیٹنگ ایک سائنس کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس میں نت نئی تحقیق اور ٹیکنیک کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت تجارت اور ٹریڈڈیویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) کی شان بے نیازی اپنی جگہ ہے جبکہ ہمارے سفارت خانے جن میں کمرشل اتاشی محض برآمدات کے فروغ کی غرض سے مقرر کیے جاتے ہیں برآمدی تجارت کے عمل میں مجرمانہ بے حسی کے لیے خاصی شہرت رکھتے ہیں عالمی منڈی میں مقابلہ بڑا سخت ہوچکا ہے جو ممالک اپنی کاروباری مہارت کا استعمال بہتر طور پر کرتے ہیں وہ نمائشوں، روڈ شوز، مرغوب پکوانوں کے ساتھ ضیافتوں کے اہتمام کے علاوہ غیر ملکی تاجروں سے ذاتی رابطوں کے ذریعہ بیرونی مارکیٹ تک موثر رسائی (Access) میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس میں بھارت ہم سے زیادہ چابکدستی کے ساتھ سرگرم عمل ہے حدیہ ہے کہ ہمارا اعلیٰ کا باسمتی چاول پاکستانی لیبل کے ساتھ اتنا مقبول اور قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا جتنا وہی چاول بھارتی برانڈ سے سمجھا جاتا ہے معاشی مفاد اور ملکی وقار کا تقاضا ہے کہ دنیا کے بہترین چاول کو مشرقی وسطیٰ کے اسلامی اور یورپ و امریکا کے متمول ممالک کی منڈیوں میں مناسب مقام دلانے کی موثر تدبیر کی جائے۔ اس مقصد کے لیے محنت دیانت کے ساتھ اعتماد سازی کے جو بھی تقاضے ہوں حب الوطنی کے جذبہ کے تحت پورے کیے جائیں۔
ملکیتی حقوق دانش: (Intellectual Property Rights)
عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ضابطوں کے مطابق کسی فصل کی تجارت پر اس کے پیدا کرنے والے ملک کو خصوصی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک طرح سے تجارتی اجارہ داری حاصل ہونے کے مترادف ہے۔ باسمتی چاول اگرچہ پاکستان الاصل ہے۔ لیکن اس کے عالمی تجارتی حقوق پر بھارت اور کسی حد تک امریکا ملکیتی حقوق دانش حاصل کرکے پاکستان کو اس میدان میں غیر موثر کرنے کے خطرناک منصوبہ پر عمل پیرا ہیں۔ جس میں انہوں نے خاصی پیش رفت بھی کرلی ہے۔ جبکہ پاکستان سست روی کا شکار ہونے کی وجہ سے اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ ملک کی اس انتہائی قیمتی برآمدی جنس کے لیے عالمی منڈی میں جائز تجارتی حقوق حاصل کرنے کی خاطر قانونی اور سفارتی سطح پر غیر ملکی اقدامات کی ضرورت ہے جس میں غفلت کے نتیجہ میں ہم ناقابل تلافی معاشی نقصان سے دو چار ہوسکتے ہیں۔ زراعت تجارت امور خارجہ اور مالیات کی وزارتوں اور اداروں کو اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ذمہ دار حلقے معاملہ کی سنگینی کا کما حقہ احساس کریں گے؟
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/46453
زرعی ضروریات کی فراہمی:
پیداوار میں زیادہ اضافہ کی خاطر ضروریات کاشت کی باآسانی فراہمی ناگزیر ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دھان کی کاشت کے لیے پانی، کھاد، ادویہ انتہائی گراں قیمت پر دستیاب ہورہی ہیں بہری پانی کی شدید قلت کے باعث بجلی، ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویلوں سے آبپاشی کی جاتی ہے۔ گزشتہ سیزن میں بجلی کے زبردست بحران کے باعث ڈیزل انجن لگانے کی مجبوری لاحق ہوئی ڈیزل کا نرخ 115/- روپے لیٹر ہوجانے کے بعد غریب کسانوں کو روزانہ ہزاروں کے خرچ کے زیر بار ہونا پڑا جوان کی بساط سے باہر تھا۔ کھاد اور ادویہ کے نرخ مقرر کرنے کی پہلی ہی فیکٹری مالکان اور بڑے ڈیلروں کو کھلی چھٹی ہے کہ بجلی اور گیس کے سنگین بحران نے ان کو بیانہ فراہم کیا جو جلتی پر تیل کے مترادف تھا چنانچہ من مالی قیمت وصول کی گئی ان حد سے بڑھے ہوئے اخراجات کاشت کو کنٹرول کرنے کے لیے معقول اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے یہ امرارباب حل وعقد کی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے۔
مارکیٹنگ نظام کی اصلاح:
دور حاضر میں پیداوار کی مارکیٹنگ ایک سائنس کی حیثیت اختیار کرچکی ہے جس میں نت نئی تحقیق اور ٹیکنیک کا استعمال ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت تجارت اور ٹریڈڈیویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) کی شان بے نیازی اپنی جگہ ہے جبکہ ہمارے سفارت خانے جن میں کمرشل اتاشی محض برآمدات کے فروغ کی غرض سے مقرر کیے جاتے ہیں برآمدی تجارت کے عمل میں مجرمانہ بے حسی کے لیے خاصی شہرت رکھتے ہیں عالمی منڈی میں مقابلہ بڑا سخت ہوچکا ہے جو ممالک اپنی کاروباری مہارت کا استعمال بہتر طور پر کرتے ہیں وہ نمائشوں، روڈ شوز، مرغوب پکوانوں کے ساتھ ضیافتوں کے اہتمام کے علاوہ غیر ملکی تاجروں سے ذاتی رابطوں کے ذریعہ بیرونی مارکیٹ تک موثر رسائی (Access) میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس میں بھارت ہم سے زیادہ چابکدستی کے ساتھ سرگرم عمل ہے حدیہ ہے کہ ہمارا اعلیٰ کا باسمتی چاول پاکستانی لیبل کے ساتھ اتنا مقبول اور قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا جتنا وہی چاول بھارتی برانڈ سے سمجھا جاتا ہے معاشی مفاد اور ملکی وقار کا تقاضا ہے کہ دنیا کے بہترین چاول کو مشرقی وسطیٰ کے اسلامی اور یورپ و امریکا کے متمول ممالک کی منڈیوں میں مناسب مقام دلانے کی موثر تدبیر کی جائے۔ اس مقصد کے لیے محنت دیانت کے ساتھ اعتماد سازی کے جو بھی تقاضے ہوں حب الوطنی کے جذبہ کے تحت پورے کیے جائیں۔
ملکیتی حقوق دانش: (Intellectual Property Rights)
عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ضابطوں کے مطابق کسی فصل کی تجارت پر اس کے پیدا کرنے والے ملک کو خصوصی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ایک طرح سے تجارتی اجارہ داری حاصل ہونے کے مترادف ہے۔ باسمتی چاول اگرچہ پاکستان الاصل ہے۔ لیکن اس کے عالمی تجارتی حقوق پر بھارت اور کسی حد تک امریکا ملکیتی حقوق دانش حاصل کرکے پاکستان کو اس میدان میں غیر موثر کرنے کے خطرناک منصوبہ پر عمل پیرا ہیں۔ جس میں انہوں نے خاصی پیش رفت بھی کرلی ہے۔ جبکہ پاکستان سست روی کا شکار ہونے کی وجہ سے اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ ملک کی اس انتہائی قیمتی برآمدی جنس کے لیے عالمی منڈی میں جائز تجارتی حقوق حاصل کرنے کی خاطر قانونی اور سفارتی سطح پر غیر ملکی اقدامات کی ضرورت ہے جس میں غفلت کے نتیجہ میں ہم ناقابل تلافی معاشی نقصان سے دو چار ہوسکتے ہیں۔ زراعت تجارت امور خارجہ اور مالیات کی وزارتوں اور اداروں کو اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ذمہ دار حلقے معاملہ کی سنگینی کا کما حقہ احساس کریں گے؟
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/jasaratmagazine/news/46453