محمود احمد غزنوی
محفلین
زندگی میں ایک مومن کیلئے عموماّ اور مرید کیلئے خصوصاّ، لازمی طور پر ایسےمواقع پیش آتے ہیں کہ اسے اپنے نفس میں باطل کا دُو بدُو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور باطل کے ساتھ یہ مقابلہ، کسی کیلئے آسان ثابت ہوتا ہے اور کسی کیلئے بہت مشکل، چنانچہ انسان کے ایمان اور باطل کے درجے کے مطابق، احوال مختلف ہوجاتے ہیں، چنانچہ مختلف قسم کے نتائج ظہور پذیر ہوتے ہیں۔اگر مرید حکمت والا ہے اورموافقت کرنے والا ہے تو وہ باطل کا سامنا اسکی پوری پوری حیثیت کے مطابق کرتا ہے، نہ کوئی کمی رہنے دیتا ہے اور نہ ہی کسی زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور انسانوں کی یہ صنف بہت کمیاب ہے۔ اور جسے موافقت میں سے پورا حصہ نہ ملا ہو، تو اسکا عمل یا تو زائد ہوتا ہے یا ناقص۔اور ناقص کی طرح زائد کے بھی مختلف درجے ہیں۔
اور جو شخص حقیقت کے ساتھ علت و تعلیل کا وطیرہ اختیار کرتا ہے تو اسکے امور اکثر اس بات کی طرف لوٹتے ہیں کہ وہ باطل کا سامنا کرتے وقت ساری ذمہ داری اللہ پر ڈال دیتا ہے، چنانچہ وہ بنی اسرائیل کی اس سنت پر کاربند ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ} [المائدة: 24] (کہ جاؤ تم اور تمہارا رب، دونوں مل کر باطل سے جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں)۔ اور ان کا یہ قول ایک چیلنج کا سا انداز رکھتا ہے۔ اور اس قول کے معنی یہ ہیں کہ "اگر تم حق پر ہو، اور تمہارا رب حق ہے، تو کوئی شک نہیں کہ تم اکیلے ہی ان لوگوں سے نمٹ لو گے اور ان پر غالب آجاؤ گے، اور تمہیں ہماری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہم تو اس سارے معاملے پر اتنا یقین نہیں رکھتے"۔ اور انکا اپنے نبی کو ایسا جواب دینا دراصل انکے نفوس کی حالت کے عین مطابق ہے۔ لیکن ایک حقیقی مومن سے ایسا قول کبھی صادر نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی کو سزاوار ہے جو ہمیں مکلف ٹھہراتا ہے اور ابتلاء دیتا ہے، چہ جائیکہ اسے مکلف ٹھہرایا جائے ۔
اور انسانوں کی اس ناپسندیدہ اور پست صنف کے بالمقابل، ایک اور صنف بھی ہے جو آخری زمانوں میں پائے جانے والے دیندار طبقوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو خلق میں سوائے خلق کے اور کچھ نہیں دیکھتے، چنانچہ یہ صنف دوسرے انسانوں پر شدت کرتی ہے، تنگی کرتی ہے،ہر چھوٹی بڑی بات پر حساب لیتی ہے، انکی خطاؤں میں سے کسی سے درگزر نہیں کرتی،اور ہر چھوٹی بڑی بات پر مواخذہ کرتی ہے، بغیر کسی رحمت کے۔ اور انسانوں کی یہ صنف بھی اسی طرح ناپسندیدہ اور مذموم ہے جس طرح پہلی صنف تھی، بلکہ ان سے کسی قدر زیادہ۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے افعال میں کسی بات میں اللہ سے معاملہ نہیں کرتے، اگرچہ اس زعم میں مبتلا ہوں کہ وہ شرع کے راستے کو اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ شرع ایک جسم ہے اور اللہ کے ساتھ معاملہ اس جسم میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔اور جو اپنے افعال میں اللہ کا عمل نہ دیکھ سکے، اسکے لئے اس فعل کا ترک کرنا، اسکے کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ خصوصاّ اگر وہ شخص کوئی لیڈر یا سربراہ ہو یا ایسے لوگوں میں سے ہو جنکی اتباع کی جاتی ہے۔
اور مرید تو اپنے اپنے مقام کے مطابق لازمی طور پر آزمائشوں اورمشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں۔جو ایمان میں جتنا قوی ہے اسکی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہے اور جو جتنا ضعیف ہے، اسکی آزمائش بھی اتنی ہی ہلکی ہے۔ اور جو شخص بغیر کسی ابتلاء کے اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ گویا ایک محال بات کا ارادہ باندھ رہا ہے۔کیونکہ نفس کے کمالات اس وقت تک باہر نہیں آتے جب تک وہ آزمائش میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اور ہم نے کچھ ناواقف لوگوں کو دیکھا ہے جو دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرنا۔اور اس دعا کے ظاہری مفہوم تک ہی قناعت کئے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انکا یہ سوال ادب کی جہت سے تو بالکل جائز ہے اور درست ہے، لیکن علم کی جہت سے درست نہیں ہے، کیونکہ علم ابتلاء کا اثبات کرتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ انسان جب کسی مشکل اور آزمائش میں مبتلا ہو تو اسے یہ چاہئیے کہ وہ مصیبت میں آسانی اور تخفیف کی دعا کرے۔
اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جو مصیبت بہت بڑی لگ رہی ہوتی ہے، فی الحقیقت وہ اتنی بڑی ہوتی نہیں، بلکہ اللہ اگر اپنے بندے پر لطف و رحمت والا معاملہ کرے تو وہ مصیبت بہت آسان اور ہلکی ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر بندہ اشقیاء میں سے ہو تو معاملہ اسکے برعکس بھی ہوتا ہے، کہ چھوٹی چھوٹی بات بھی آدمی کیلئے کسی بڑی مصیبت کی طرح تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ اور آدمی اگر شعور رکھتا ہو تو لوگوں میں اس بات کا عام مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ایقان والا مومن مصیبت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اسکی نظر اللہ پر ہوتی ہے اور اس بات پر ہوتی ہے کہ اس وقت اللہ کی کیا مرضی ہے۔اور جسکی نظر اللہ پر ہو، اسکے لئے مصیبت ایک نعمت ثابت ہوتی ہے۔اور اس بات کو اس شخص کی طرح اور کوئی محسوس نہیں کرسکتا جس پر یہ بیت رہی ہو۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص چاہے کہ اسکے لئے پوری دنیاوی زندگی نعیم و مقیم ثابت ہو تو اسکو یہ جان لینا چاہئیے کہ اگر ایسا ہو جائے تو وہ خیرِ کثیر سے محروم رہے گا۔ان نعموتوں سے محروم رہے گا جو نفس کو سخت ناپسند ہیں۔ اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ {وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 216]. (کہ ہوسکتا ہے کہ تم کسی شئے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہو)۔
اور لازمی بات ہے کہ مرید جب کسی ابتلاء سے گذر جاتا ہے تو اسے ترقی اور بلند ی حاصل ہوتی ہے، اگر وہ دورانِ ابتلاء اللہ کے ساتھ معاملے میں موافقت پر کاربند رہے ۔ اور اگر ایسا نہیں تو وہ اپنے پہلے مقام پر ہی رہتا ہے، بلکہ اس سے بھی نیچے جاپڑتا ہے اگر اس آزمائش میں سے برے طریقے سے نکلا ہو تو۔ اور مریدوں میں سے موافقت اور توفیق والا وہ ہے جو مصیبت کے دوران اس مصیبت کو نہیں بلکہ اسکے نتیجے پر نظر رکھے۔کیونکہ اسکی ہمت کا تعلق وصولِ حق سے ہے، اس طلب سے نہیں ہے جو نفسانی اغراض کے موافق ہو۔
اور یہی وہ فرق ہے جو ایک عامی اور ایک مرید میں ہوتا ہے۔
(تحریر : العارف باللہ شیخ عبدالغنی العمری حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
http://www.alomariya.org/awrak_suite.php?id=37
اور جو شخص حقیقت کے ساتھ علت و تعلیل کا وطیرہ اختیار کرتا ہے تو اسکے امور اکثر اس بات کی طرف لوٹتے ہیں کہ وہ باطل کا سامنا کرتے وقت ساری ذمہ داری اللہ پر ڈال دیتا ہے، چنانچہ وہ بنی اسرائیل کی اس سنت پر کاربند ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ {فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ} [المائدة: 24] (کہ جاؤ تم اور تمہارا رب، دونوں مل کر باطل سے جنگ کرو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں)۔ اور ان کا یہ قول ایک چیلنج کا سا انداز رکھتا ہے۔ اور اس قول کے معنی یہ ہیں کہ "اگر تم حق پر ہو، اور تمہارا رب حق ہے، تو کوئی شک نہیں کہ تم اکیلے ہی ان لوگوں سے نمٹ لو گے اور ان پر غالب آجاؤ گے، اور تمہیں ہماری مدد کی کوئی ضرورت نہیں۔جہاں تک ہماری بات ہے، تو ہم تو اس سارے معاملے پر اتنا یقین نہیں رکھتے"۔ اور انکا اپنے نبی کو ایسا جواب دینا دراصل انکے نفوس کی حالت کے عین مطابق ہے۔ لیکن ایک حقیقی مومن سے ایسا قول کبھی صادر نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی کو سزاوار ہے جو ہمیں مکلف ٹھہراتا ہے اور ابتلاء دیتا ہے، چہ جائیکہ اسے مکلف ٹھہرایا جائے ۔
اور انسانوں کی اس ناپسندیدہ اور پست صنف کے بالمقابل، ایک اور صنف بھی ہے جو آخری زمانوں میں پائے جانے والے دیندار طبقوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو خلق میں سوائے خلق کے اور کچھ نہیں دیکھتے، چنانچہ یہ صنف دوسرے انسانوں پر شدت کرتی ہے، تنگی کرتی ہے،ہر چھوٹی بڑی بات پر حساب لیتی ہے، انکی خطاؤں میں سے کسی سے درگزر نہیں کرتی،اور ہر چھوٹی بڑی بات پر مواخذہ کرتی ہے، بغیر کسی رحمت کے۔ اور انسانوں کی یہ صنف بھی اسی طرح ناپسندیدہ اور مذموم ہے جس طرح پہلی صنف تھی، بلکہ ان سے کسی قدر زیادہ۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے افعال میں کسی بات میں اللہ سے معاملہ نہیں کرتے، اگرچہ اس زعم میں مبتلا ہوں کہ وہ شرع کے راستے کو اختیار کئے ہوئے ہیں حالانکہ شرع ایک جسم ہے اور اللہ کے ساتھ معاملہ اس جسم میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔اور جو اپنے افعال میں اللہ کا عمل نہ دیکھ سکے، اسکے لئے اس فعل کا ترک کرنا، اسکے کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ خصوصاّ اگر وہ شخص کوئی لیڈر یا سربراہ ہو یا ایسے لوگوں میں سے ہو جنکی اتباع کی جاتی ہے۔
اور مرید تو اپنے اپنے مقام کے مطابق لازمی طور پر آزمائشوں اورمشکلات میں مبتلا ہوتے ہیں۔جو ایمان میں جتنا قوی ہے اسکی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہے اور جو جتنا ضعیف ہے، اسکی آزمائش بھی اتنی ہی ہلکی ہے۔ اور جو شخص بغیر کسی ابتلاء کے اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ گویا ایک محال بات کا ارادہ باندھ رہا ہے۔کیونکہ نفس کے کمالات اس وقت تک باہر نہیں آتے جب تک وہ آزمائش میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اور ہم نے کچھ ناواقف لوگوں کو دیکھا ہے جو دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرنا۔اور اس دعا کے ظاہری مفہوم تک ہی قناعت کئے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انکا یہ سوال ادب کی جہت سے تو بالکل جائز ہے اور درست ہے، لیکن علم کی جہت سے درست نہیں ہے، کیونکہ علم ابتلاء کا اثبات کرتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ انسان جب کسی مشکل اور آزمائش میں مبتلا ہو تو اسے یہ چاہئیے کہ وہ مصیبت میں آسانی اور تخفیف کی دعا کرے۔
اور کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جو مصیبت بہت بڑی لگ رہی ہوتی ہے، فی الحقیقت وہ اتنی بڑی ہوتی نہیں، بلکہ اللہ اگر اپنے بندے پر لطف و رحمت والا معاملہ کرے تو وہ مصیبت بہت آسان اور ہلکی ثابت ہوتی ہے۔ اور اگر بندہ اشقیاء میں سے ہو تو معاملہ اسکے برعکس بھی ہوتا ہے، کہ چھوٹی چھوٹی بات بھی آدمی کیلئے کسی بڑی مصیبت کی طرح تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔ اور آدمی اگر شعور رکھتا ہو تو لوگوں میں اس بات کا عام مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ایقان والا مومن مصیبت کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اسکی نظر اللہ پر ہوتی ہے اور اس بات پر ہوتی ہے کہ اس وقت اللہ کی کیا مرضی ہے۔اور جسکی نظر اللہ پر ہو، اسکے لئے مصیبت ایک نعمت ثابت ہوتی ہے۔اور اس بات کو اس شخص کی طرح اور کوئی محسوس نہیں کرسکتا جس پر یہ بیت رہی ہو۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص چاہے کہ اسکے لئے پوری دنیاوی زندگی نعیم و مقیم ثابت ہو تو اسکو یہ جان لینا چاہئیے کہ اگر ایسا ہو جائے تو وہ خیرِ کثیر سے محروم رہے گا۔ان نعموتوں سے محروم رہے گا جو نفس کو سخت ناپسند ہیں۔ اور یہیں سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ {وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ} [البقرة: 216]. (کہ ہوسکتا ہے کہ تم کسی شئے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہو)۔
اور لازمی بات ہے کہ مرید جب کسی ابتلاء سے گذر جاتا ہے تو اسے ترقی اور بلند ی حاصل ہوتی ہے، اگر وہ دورانِ ابتلاء اللہ کے ساتھ معاملے میں موافقت پر کاربند رہے ۔ اور اگر ایسا نہیں تو وہ اپنے پہلے مقام پر ہی رہتا ہے، بلکہ اس سے بھی نیچے جاپڑتا ہے اگر اس آزمائش میں سے برے طریقے سے نکلا ہو تو۔ اور مریدوں میں سے موافقت اور توفیق والا وہ ہے جو مصیبت کے دوران اس مصیبت کو نہیں بلکہ اسکے نتیجے پر نظر رکھے۔کیونکہ اسکی ہمت کا تعلق وصولِ حق سے ہے، اس طلب سے نہیں ہے جو نفسانی اغراض کے موافق ہو۔
اور یہی وہ فرق ہے جو ایک عامی اور ایک مرید میں ہوتا ہے۔
(تحریر : العارف باللہ شیخ عبدالغنی العمری حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
http://www.alomariya.org/awrak_suite.php?id=37