La Alma
لائبریرین
باغی
دمِ آخریں سر گشتگی کی دھند
چھٹ ہی جاتی ہے .
قزّاقِ اجل
گرہ گراں خوابی کی
کھول دیتا ہے .
پھر ہوتا ہے ذات کا ذرہ ذرہ جامِ جہاں نما اور
مقتضائے وقت ہوتا ہے کہ
وہ جو مدتوں سے
سراب اور آب کے بیچ خاموش اشارےتھے
اب گویا ہوں کہ دشت و صحرا میں تشنگی کبھی نہیں تھی.
نظامِ ہستی سے گر نکلتے
تو یہ ریگزار پگھل ہی جاتے ،
ایک ہی پکار سے
اپنی اشتہا مٹانے کو
یہ ساگر نگل جاتے کنارے ،
پیاس بجھانے کو
ساحل، سمندر پی جاتے.
لیکن اس قید و بندِ حیات میں
جراتِ سرتابی کس کو ہے
کون ہے ایسا آشفتہ سر
نظامِ ہستی سےجو ٹکرائے .