باغ خوشبو یہ سب تمہارے ہیں۔ اصلاح

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
باغ خوشبو یہ سب تمہارے ہیں
دشت جتنے بھی ہیں ہمارے ہیں

کیا نہیں ہے تمہارے بس میں صنم
یہ تو انکار کے بہانے ہیں

میں جسے کہکشاں سمجھتا تھا۔
تیری زلفوں کے وہ ستارے ہیں

رات مشکل بھی کاٹ لیتے ہیں
تیری یادوں کے جو سہارے ہیں

لگ رہا ہے سفینہ ڈوبے گا
ہر طرف ، ہر طرف کنارے ہیں

بات کرنے کو کر تو لیتے ہیں
منتظر بس ترے اشارے ہیں

ہم کوئی بات ٹال دیں کیسے
وہ ہمیں جان سے بھی پیارے ہیں

خرم ابن شبیر
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب

میں جسے کہکشاں سمجھتا تھا۔
تیری زلفوں کے وہ ستارے ہیں

رات مشکل بھی کاٹ لیتے ہیں
تیری یادوں کے جو سہارے ہیں
 
وارث بھائی سے ڈرتا ہوا مراسلہ

خرم بھائی بہت خوب ہے. ابلاغ کی اصلاح تو اساتذہ اور خاص طور پے اعجاز صاحب کا کام ہے. لیکن جیسا خلیل صاحب نے فرمایا کہ دوسرے شعر کا دوسرے مصرعے میں قافیہ غلط ہے. اسی طرح پہلے مصرعہ وزن سے آؤٹ ہے."صنم" ھٹا دیں تو ٹھیک ہوجاتا ہے.
مقطع کا پہلا مصرعہ بھی توجہ طلب ہے

بہر حال نیم حکیم ہوں خود اصلاح کا طالب ہوں اسی مقصد سے حاضر ہوا.
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے شعر کا قافیہ غلط ہے جیسا کہ دوسرے بھی کہہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی اشعار میں کوئی فنی خامی نہیں۔ البتہ
لگ رہا ہے سفینہ ڈوبے گا
ہر طرف ، ہر طرف کنارے ہیں

بات کرنے کو کر تو لیتے ہیں
منتظر بس ترے اشارے ہیں
ان دونوں اشعار میں ابلاغ نہیں ہوتا کہ کیا مراد ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
باغ خوشبو یہ سب تمہارے ہیں
دشت جتنے بھی ہیں ہمارے ہیں

میں جسے کہکشاں سمجھتا تھا۔
تیری زلفوں کے وہ ستارے ہیں

واہ بہت خوب خرم بھائی۔

خوش رہیے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم شہزاد خرم بھائی بہت عمدہ ۔ داد قبول فرمائیے۔
دوسرے شعر کے دوسرے مصرع پر نظرثانی فرمائیے۔
جزاک اللہ محمد خلیل الرحمٰن صاحب اصل میں جب میں نے یہ غزل لکھی تو اس وقت پتہ نہیں کیوں میں نے بہانے کو قافیہ بنا لیا آپ کی مہربانی سے ہی میری نظر پڑی ابھی اس کا بھی کچھ کرتے ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب

میں جسے کہکشاں سمجھتا تھا۔
تیری زلفوں کے وہ ستارے ہیں

رات مشکل بھی کاٹ لیتے ہیں
تیری یادوں کے جو سہارے ہیں
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ نایاب بھائی اصل میں سب سے پہلے کہکشاں والا شعر ہی نازل ہوا تھا۔ پتہ نہیں رات کا کیا وقت تھا مجھے ایک دم سے آمد ہوئی میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا میں نے بیگم محترمہ کو جگایا اور ان کو اپنا موبائل دیا اور کہا یہ شعر لکھ کر سیو کر دو اور اس فرمابردار بندی نے حکم بجا لایا اور کافی دن گزر جانے کے بعد میں نے اپنے موبائل میں جب یہ شعر پڑھا تو پھر اچانک یاد آیا اور پھر اسی وقت باقی شعر بھی آتے گے اور یہ غزل بن گی
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
وارث بھائی سے ڈرتا ہوا مراسلہ

خرم بھائی بہت خوب ہے. ابلاغ کی اصلاح تو اساتذہ اور خاص طور پے اعجاز صاحب کا کام ہے. لیکن جیسا خلیل صاحب نے فرمایا کہ دوسرے شعر کا دوسرے مصرعے میں قافیہ غلط ہے. اسی طرح پہلے مصرعہ وزن سے آؤٹ ہے."صنم" ھٹا دیں تو ٹھیک ہوجاتا ہے.
مقطع کا پہلا مصرعہ بھی توجہ طلب ہے

بہر حال نیم حکیم ہوں خود اصلاح کا طالب ہوں اسی مقصد سے حاضر ہوا.
مزمل شیخ بسمل صاحب جزاک اللہ حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ جہاں تک پہلے مصرعہ کی بات ہے اگر وہاں سے صنم نکال دے تو ایک سبب کم ہو جاتا ہے جو کہ بالکل وزن سے خارج ہوجائے گا۔ آپ تقطع کر کے دیکھ سکتے ہیں
چلیں میں خود ہی کر دیتا ہوں

فاعلاتن مفاعلن فعلن
کیا نہیں ہے تمہارے بس میں صنم
یہاں تمہارے کا تما رہے پڑھا جائے گا اور صنم میں م اصافی ہے اور مصرعہ کے آخر میں ایک رکن کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ کیوں ہوتی ہے اس بارے میں محمد وارث صاحب ہی اچھی طرح بتا سکتے ہیں ہم تو لکیر کے فقیر ہیں:D
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دوسرے شعر کا قافیہ غلط ہے جیسا کہ دوسرے بھی کہہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی اشعار میں کوئی فنی خامی نہیں۔ البتہ
لگ رہا ہے سفینہ ڈوبے گا
ہر طرف ، ہر طرف کنارے ہیں

بات کرنے کو کر تو لیتے ہیں
منتظر بس ترے اشارے ہیں
ان دونوں اشعار میں ابلاغ نہیں ہوتا کہ کیا مراد ہے؟
بابا جانی پہلے تو السلام علیکم بہت عرصہ بعد بات ہو رہی ہے آپ کیسے ہیں۔ دوسرے شعر پر تو میں کوشش کرتا ہوں ورنہ اپنے کھیت کی مولی ہے
اور باقی دو اشعر میں پہلے میں تو عام طور پر شعر ہوتے ہیں نا کہ جس میں یہ ذکر ہوتا ہے کہ کشتی کنارے کے پاس ڈوبتی ہے۔ یا ساحل کے پاس۔ جیسے ایک ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے کہ "اکثر سفینے ڈوبتے ہیں ساحل کے آس پاس" وغیرہ وغیرہ ۔ یا ایک اور مشہور شعر ہے " میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا":D اس شعر میں میں بھی یہی کہنے جا رہا ہوں کہ اب کنارے نظر آنا شروع ہو گے ہیں ہو سکتا ہے سفینہ ڈوب جائے گا
اور دوسرے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ویسے تو ہم ہر طرح کی بات کرلیتے ہیں لیکن منتظر ہیں کہ تم کوئی اشارہ کرو تو پھر ہم بات کریں:D
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جزاک اللہ محمد خلیل الرحمٰن صاحب اصل میں جب میں نے یہ غزل لکھی تو اس وقت پتہ نہیں کیوں میں نے بہانے کو قافیہ بنا لیا آپ کی مہربانی سے ہی میری نظر پڑی ابھی اس کا بھی کچھ کرتے ہیں
جی ہمیں اندازہ تھا کہ یہ جلدی کی کارستانی لگتی ہے لہٰذا نشاندہی کرنے ہی پر اکتفا ء کیا۔:)
 
مزمل شیخ بسمل صاحب جزاک اللہ حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ جہاں تک پہلے مصرعہ کی بات ہے اگر وہاں سے صنم نکال دے تو ایک سبب کم ہو جاتا ہے جو کہ بالکل وزن سے خارج ہوجائے گا۔ آپ تقطع کر کے دیکھ سکتے ہیں
چلیں میں خود ہی کر دیتا ہوں

فاعلاتن مفاعلن فعلن
کیا نہیں ہے تمہارے بس میں صنم
یہاں تمہارے کا تما رہے پڑھا جائے گا اور صنم میں م اصافی ہے اور مصرعہ کے آخر میں ایک رکن کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ کیوں ہوتی ہے اس بارے میں محمد وارث صاحب ہی اچھی طرح بتا سکتے ہیں ہم تو لکیر کے فقیر ہیں:D

اب وارث بھائی کو ہی آنے دیجئے جناب. :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مزمل شیخ بسمل صاحب جزاک اللہ حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔ جہاں تک پہلے مصرعہ کی بات ہے اگر وہاں سے صنم نکال دے تو ایک سبب کم ہو جاتا ہے جو کہ بالکل وزن سے خارج ہوجائے گا۔ آپ تقطع کر کے دیکھ سکتے ہیں
چلیں میں خود ہی کر دیتا ہوں

فاعلاتن مفاعلن فعلن
کیا نہیں ہے تمہارے بس میں صنم
یہاں تمہارے کا تما رہے پڑھا جائے گا اور صنم میں م اصافی ہے اور مصرعہ کے آخر میں ایک رکن کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ کیوں ہوتی ہے اس بارے میں محمد وارث صاحب ہی اچھی طرح بتا سکتے ہیں ہم تو لکیر کے فقیر ہیں:D

جیسا کہ اعجاز صاحب نے لکھا اس غزل میں وزن کی تو کوئی غلطی نہیں اور قافیے کی غلطی کی نشاندہی ہو چکی۔

خرم بات تمھاری صحیح ہے لیکن وضاحت تم خود نہیں کر سکے مطلب بحرِ خفیف پر میرا مضمون صحیح طرح نہیں سمجھا، پڑھا تو شاید تم نے ہوگا ہی۔ :)

یہاں فع لُن نہیں بلکہ فَ عِ لُن یعنی فَعِلن 1 1 2 وزن آیا ہے جو کے اس بحر کے آٹھ اوزان میں سے ایک ہے۔ فی الوقت مجھے فیض کا ایک انتہائٰی خوبصورت یاد آیا ہے

عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
 
وارث بھائی بہت عمدہ. اسکا مطلب یوں ہوا کہ اک مصرعہ اگر اس بحر کا اک وازن میں ہو تو دوسرا اسی بحر کے کسی وزن میں بھی آسکتا ہے؟ یا کوئی حد موجود ہے کہ کونسے وزن آسکتے ہیں اور کونسے نہیں ؟
 
Top