طارق شاہ
محفلین
غزل
باقرزیدی
قد قیامت، بدن بلا کا ہے
رزقِ شعر وسُخن بلا کا ہے
قندِ لب کا مزہ ہے باتوں میں
یار شیریں دَہَن بلا کا ہے
ساری رنگینیاں غزل کی نِثار
اُس کا سادہ سُخن بلا کا ہے
سب اُسی سے ہے بزْم آرائی
آپ وہ انجُمن بلا کا ہے
بُت بہت ہیں تو کیا بفضلِ خُدا
دل بھی تو برہمن بلا کا ہے
ہم بھی اِک عہْد روز لیتے ہیں
وہ بھی وعدہ شکن بلا کا ہے
ہجرِ حوّا میں گریۂ آدم
رشتۂ مرد و زن بلا کا ہے
عام ہے فیضِ کاکل و رُخسار
شُغلِ دار و رَسَن بلا کا ہے
تیشۂ عزمِ کوہسار شکن
قصّۂ کوہکن بلا کا ہے
شدّتِ شعروشاعری ہے مگر
یہ بھی آشوبِ فن بلا کا ہے
کارِ طفلاں نہیں ہے کارِ سُخن
رَن بلا کا ہے بَن بلا کا ہے
مِل رہے ہیں گلے جدید وقدیم
اپنا رنگِ سُخن بلا کا ہے
باقرزیدی