طارق شاہ
محفلین
غزل
(1)
باقرزیدی
بالا نشینِ مسندِ دربار ہم نہ تھے
شاہوں کی سلطنت کے وفادار ہم نہ تھے
نقدِ سُخن تھے حرفِ سُبکبار ہم نہ تھے
غالب کے قدرداں تھے طرفدار ہم نہ تھے
ایسا نہیں ہُوا کہ سرِ دار ہم نہ تھے
مانا کہ اُس قبیلے کے سردار ہم نہ تھے
وہ حُبِ ذات جس نے ڈبویا ہے قوم کو
اُس لشکرِ اَنا کے علمدار ہم نہ تھے
ہم نے تو اپنے حق کا تقاضہ نہیں کِیا
بے جا عنایتوں کے طلبگار ہم نہ تھے
عِزّت کی زندگی کی تو خواہش ضرور کی
لیکن حریصِ منصب و دستار ہم نہ تھے
اس شہر بے امان میں سچ کون بولتا
چپ ہو گئے کہ میثم و تمار ہم نہ تھے
الله جانتا ہے سمیٹی نہیں گئیں
اتنی محبتوں کے سزاوار ہم نہ تھے
محفل سے اُس نے اپنی اُٹھایا تو تھا مگر
پھر آگئے کہ اتنے بھی خودار ہم نہ تھے
باقرزیدی
(لذّتِ گُفتار)
آخری تدوین: