طارق شاہ
محفلین
غزل
باقر زیدی
جب نظر حُسن رَسا ہوتی ہے
ہر قدم لغزشِ پا ہوتی ہے
اُس کے ملبوسِ بدن کی خوشبو
کِس قدر ہوش رُبا ہوتی ہے
خود کو خود سے ہی چُھپا رکھنے میں
کیا ستمگر سی ادا ہوتی ہے
سُرخ پھُولوں پہ ہو شبنم جیسے
عارضوں پر وہ حیا ہوتی ہے
اب کہاں وہ نگہِ مہر کہ جو
دونوں عالم سے سوا ہوتی ہے
منہ سے نِکلے نہ کوئی حرفِ طلَب
کیسی خودار اَنا ہوتی ہے
وہ سمجھتا ہے دل وجاں کا مزاج
اُس کی آنکھوں میں حیا ہوتی ہے
کیا کہیں اُس کی بُوئے زُلف دراز
نکہتِ گُل سے سوا ہوتی ہے
باقر زیدی