طارق شاہ
محفلین
غزل
(2)
باقرزیدی
دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں
ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفر کرتے ہیں
جب سراپے پہ کہیں اُن کی نظر کرتے ہیں
میر صاحب کی طرح عمْربسر کرتے ہیں
بندشیں ہم کو کسی حال گوارا ہی نہیں
ہم تو وہ لوگ ہیں دِیوار کو در کرتے ہیں
وقت کی تیز خرامی ہمیں کیا روکے گی!
جُنبشِ کلک سے صدیوں کا سفر کرتے ہیں
نقش پا اپنا کہیں راہ میں ہوتا ہی نہیں
سر سے کرتے ہیں مہم جب کوئی سر کرتے ہیں
ہمنشیں! خُوب ہے یہ محفل یاران کے یہاں!
وہ سلیقہ ہے کہ، عیبوں کو ہُنر کرتے ہیں
کیا کہیں حال تِرا، اے مُتَمَدّن دُنیا
جانور بھی نہیں کرتے جو بشر کرتے ہیں
ہم کو دُشمن کی بھی تکلیف گوارا نہ ہُوئی
لوگ احباب سے بھی صرفِ نظر کرتے ہیں
مرقدوں پر تو چراغاں ہے شب و روز مگر
عمر کچھ لوگ اندھیروں میں بسر کرتے ہیں
تذکرہ مِیر کا غالب کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر اربابِ ہُنر کرتے ہیں
باقرزیدی
( لذّتِ گفتار )
آخری تدوین: