طارق شاہ
محفلین
باقر زیدی
غزل
ذکر اُس کا اگر پیکرِ اشعار میں آوے
کیا کیا نہ مزہ لذّتِ گُفتار میں آوے
مطلُوبِ نظر چشمِ طلبگار میں آوے
سُورج کی طرح رَوزن دِیوار میں آوے
رکھّا ہے قدم حضرتِ غالب کی زمیں پر
کُچھ اور بُلندی مِرے افکار میں آوے
سچ پُوچھو تو مجھ کو بھی وہی وجہ سکوں ہے
وہ چین، جو تجھ کو مِرے آزار میں آوے
رُخصت مجھے کرتے تھے کوئی یہ بھی تو کہتا
پھر لوٹ کے اپنے در و دِیوار میں آوے
اوروں کے گُناہوں سے بھی تر ہوتا ہے دامن
جس طرح، کہ پانی کبھی بوچھار میں آوے
یہ رات بھی وسواس سے سہمی ہُوئی گُزری
کیا جانیے ، کیا صُبح کے اخبار میں آوے
اُس حُسنِ بَلاخیز میں اوصاف بہت ہیں
اِک وصفِ محبّبت بھی مگر یار میں آوے
پھر آج مُرتّب ہو کوئی اور فسانہ !
پھر کوئی حَسِین مِصر کے بازار میں آوے
خوابوں کے تسَلسل سے تو بوجھل ہُوئیں آنکھیں !
تعبیر بھی اب دِیدۂ بیدار میں آوے
یُوں سمجھو ،کہ غالب سے عقِیدت کا اثر ہے
شوخی کی جَھلک گر مِرے اشعار میں آوے
باقر زیدی