طارق شاہ
محفلین
غزلِ
باقرزیدی
یہ آشنا کا ہے، نہ کسی اجنبی کا ہے
جو دل میں گھر بناتا ہے، دل تو اُسی کا ہے
میرے ہُنر کا ہے، نہ مِری شاعری کا ہے
غزلوں سے میری، شہرمیں چرچا اُسی کا ہے
بدلے حَسِیں، تو عشق کی دنیا بدل گئی
جو دل کسی کا ہوتا تھا، اب ہر کسی کا ہے
کیوں ڈھونڈتے ہیں لوگ کسی اور راہ کو
سیدھا تو ایک راستہ بس راستی کا ہے
اِس نے تو اورکھول دیے راستے کئی
اک شورہرطرف جو یہ دہشت گری کا ہے
پڑتا ہے مہرومہ کا اندھیروں سے واسطہ
ظلمت کے راستوں میں سفر روشنی کا ہے
جن کا رہا ہمیشہ اِجارہ بہار پر
اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ گلشن سبھی کا ہے
دل کے معاملات میں دنیا کا دخل کیا
کچھ جبر کا نہیں ہے یہ سودا خوشی کا ہے
اِس عرصۂ حیات میں نعمت ہے موت بھی
جو موت کا خدا ہے، وہی زندگی کا ہے
پنہاں نہیں رہا ہے بصیرت کی چشم سے
جو قحط سیلِ نُور میں اب روشنی کا ہے
لگتا ہے اعتبار کی دولت مِلی مجھے
اہلِ نظرمیں ذکر مِری شاعری کا ہے
نسبت کمال سے ہے، ہراہلِ کمال کو
غالب کو دیکھ لیجیے، بندہ علی کا ہے
باقرزیدی
( دُرِ دریائے غزل )