طارق شاہ
محفلین
غزلِ
باقر نقوی
(لندن)
درد ایسا ہے کہ سِینے میں سماتا بھی نہیں
ہنسنے دیتا بھی نہیں اور رُلاتا بھی نہیں
پہروں پِھرتا ہُوں اندھیروں کے گھنے جنگل میں
کوئی آسیب مجھے آکے ڈراتا بھی نہیں
ایک تِنکا ہُوں، پڑا ہُوں لبِ ساحل کب سے
کوئی جَھونکا مجھے پانی میں بہاتا بھی نہیں
سادہ سادہ سَحَر و شام گُزر جاتے ہیں
کوئی لڑتا بھی نہیں، کوئی مناتا بھی نہیں
یا وہ موتی تھا کہ بالوں میں گُندھا رہتا تھا
گُم گیا ہُوں تو کوئی ڈھونڈنے آتا بھی نہیں
ایک دِیوار ادُھوری ہی پڑی ہے کب سے
آپ گرتی بھی نہیں، کوئی اُٹھاتا بھی نہیں
باقر نقوی
باقر نقوی
(لندن)
درد ایسا ہے کہ سِینے میں سماتا بھی نہیں
ہنسنے دیتا بھی نہیں اور رُلاتا بھی نہیں
پہروں پِھرتا ہُوں اندھیروں کے گھنے جنگل میں
کوئی آسیب مجھے آکے ڈراتا بھی نہیں
ایک تِنکا ہُوں، پڑا ہُوں لبِ ساحل کب سے
کوئی جَھونکا مجھے پانی میں بہاتا بھی نہیں
سادہ سادہ سَحَر و شام گُزر جاتے ہیں
کوئی لڑتا بھی نہیں، کوئی مناتا بھی نہیں
یا وہ موتی تھا کہ بالوں میں گُندھا رہتا تھا
گُم گیا ہُوں تو کوئی ڈھونڈنے آتا بھی نہیں
ایک دِیوار ادُھوری ہی پڑی ہے کب سے
آپ گرتی بھی نہیں، کوئی اُٹھاتا بھی نہیں
باقر نقوی