باقِر زیدی "خوش بدن جب کوئی دیکھا ترے پیکر کی طرح"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
باقِرزیدی

خوش بدن جب کوئی دیکھا ترے پیکر کی طرح
دل سے نکلا ہی نہیں وصل کے منظر کی طرح

آ کبھی رہنے کو دل میں بھی مرے گھر کی طرح
قریہء جاں میں بکھر زلفِ معطّرکی طرح

ہم وہ دریا نہیں جو بحر میں جا گرتے ہیں
اپنے ہی ظرف میں رہتے ہیں سمندر کی طرح

کوئی گرتا ہوا اچھا نہیں لگتا ہم کو
اشک آنکھوں پہ سجا رکھے ہیں گوہر کی طرح

لوحِ محفوظ پہ لکھی ہوئی تحریر ہیں ہم
محو ہوسکتے نہیں حرفِ مکرّر کی طرح

جس کو دیکھو وہ بڑھا جاتا ہے ناحق کی طرف
کوئی تو پلٹے کبھی حر کے مقدّ ر کی طرح

تنگیِ شرکتِ احساس کے مارے ہوئے لوگ
گھرمیں بستے تو ہیں لیکن کسی بے گھرکی طرح

سجدہ ریزی کو جبینیں بھی ہیں در بھی ہیں مگر
نہ مِرے سر کی طرح ہیں نہ ترے در کی طرح

کتنے آئے ہیں نبیٌ، کتنے صحیفے اترے
ایک بندہ نہیں سیرت میں پیمبرؐکی طرح

اب کہاں تیرگیِ شام کے زرداروں میں
ایسا بے زر جو نظر آئے ابوذر کی طرح

جس کے بس میں ہو حَسینوں کی لگاوٹ کا طلسم
پھونک دے میرے رگ و پے میں بھی منتر کی طرح

دعویِٰ عشقِ علیٌ سب کو بہت ہے لیکن
کوئی آئے تو نظر مالکِ اُشتر کی طرح

شخصیت اور ہی ہوتی مِری باقِر شاید
لوگ لیتے نہ مِرا نام جو بَاقر کی طرح

باقِرزیدی
 

طارق شاہ

محفلین
بہت پرمعنی انتخاب
بہت شکریہ شاہ بھائی شریک محفل کرنے ر
لاجواب طارق شاہ صاحب۔ بہت شکریہ
محترمین جناب نایاب صاحب، جناب نیرنگ خیال صاحب
اظہار خیال کے لئے آپ صاحبان کا شکریہ !

انتخاب کی پذیرائی اور داد کے لئے ممنون ہوں، بہت خوشی ہوئی کہ
بالا غزل آپ حضرات کو بھی پسند آئی ۔

باقر زیدی صاحب بھرت پور انڈیا سے 1947 میں پاکستان آئے، پاکستان نیوی ، بعدازاں نیشنل بنک میں آفیسر رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے
مشہور شاعر فیض بھرت پوری کے صاحب ز١دہ ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج کل مری لینڈ امریکہ میں سکونت پذیر ہیں ۔
ایک بار پھر سے تشکّر
بہت خوش رہیں
 
Top