فرخ منظور
لائبریرین
باقیاتِ شعر اقبال
(متروک اردو کلام )
مرتبہ
ڈاکٹر صابر کلورُوی
اقبال اکادمی پاکستان
انتساب
اپنے والد
شاہ میر خان
(متوفٰی :۷ دسمبر ۱۹۹۰ئ)
کے نام
جنہیں اس کام کی تکمیل کی بڑی حسرت تھی
انتباہ
زیر نظر مجموعے میں شامل اشعار کا تقریباً ۹۰فیصد حصہ ایسا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر ترک کر دیا تھا۔ لہٰذا اس کلام کو درسی کتابوں میں شامل کرنا یا ریڈیو اور ٹی وی پر گانا مناسب نہیں ہو گا۔ البتہ اقبال کے فکری و فنی ارتقا کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ لیکن حوالہ دیتے وقت ’’باقیات‘‘ کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ تاکہ اسے اقبال کے متداول کلام سے ممیز کیا جا سکے ۔
(صابر کلورُوی )
فہرست
دیباچہ از ڈاکٹر صابرکلوروی ۱
شعری باقیات کی تدوین نو(جواز، مسائل اور طریقہ کار ۳
دورِ اوّل کا کلام(۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۸ئ) ۲۷۔۳۲۱
’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات
٭ مکمل متروکہ نظمیں : ۲۹
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۱۷۰
٭ مکمل متروکہ غزلیں ۲۳۷
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۲۹۵
٭ مکمل قطعات ؍ رباعیات ۳۱۳
دور ِ دوم کا کلام (۱۹۰۹ء تا ۱۹۲۴ئ) ۳۲۳۔۴۳۴
’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت تک
٭ مکمل متروکہ نظمیں ۳۲۵
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۳۶۹
٭ مکمل متروکہ غزلیں ۳۹۹
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۴۱۱
٭ ظریفانہ قطعات ۴۱۴
٭ ظریفانہ قطعات کے جزوی متروکات ۴۲۷
٭ قطعات؍ رباعیات ۴۲۸
دورِ سوم کا کلام (۱۹۲۵ ء تا ۱۹۳۸ئ) ۴۳۵۔۵۰۲
’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘
’’ارمغان حجاز‘‘ کے متروکات
٭ مکمل متروکہ نظمیں ؍قطعات ۴۳۷
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۴۶۰
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۴۹۴
٭ متروکہ قطعات ؍ رباعیات ۴۹۷
متفرقات ۵۰۳۔۵۳۶
(۱) تاریخیں اور مادہ ہائے تاریخ ۵۰۵
(۲) بدیہہ گوئی ؍ فردیات ۵۲۶
ضمیمہ جات ۵۳۷۔۵۵۴
(الف) نو دریافت کلامِ اقبال ۵۳۹
(ب) تحقیق طلب : کلامِ اقبال ۵۴۶
(ج) اقبال کا الحاقی کلام ۵۵۰
دیباچہ
کلیاتِ باقیات شعر اقبال (اردو) پیش خدمت ہے ۔ یہ کلیات میرے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’باقیاتِ شعرِ اقبال : تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ کا حاصلِ ضمنی (By Product) ہے۔ جب میں نے اقبال کے شعری باقیات پر تحقیق شروع کی تو میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ باقیات کی تلاش اور فراہمی کا تھا ۔ باقیات کے موضوع پر چند کتب موجود تھیں لیکن اِن میں بیشتر کلام مشترک تھا اور متن کی بے شمار اغلاط موجود تھیں۔ اپنی تحقیق کے دوران میں، میں نے اولین مآخذ کی تلاش جاری رکھی اور بڑی حد تک ان کی اغلاط کو درست کیا۔ میں نے صرف دستیاب کلام پر بھروسا نہیں کیا بلکہ غیر مدون اور غیر مطبوعہ کلام بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ الحمدللہ میرے اس تحقیقی کام کی بدولت ساڑھے سات سو کے قریب اشعار کا باقیات میں اضافہ ہوا جن میں دو تہائی کلام غیر مطبوعہ ہے جو اقبال کی بیاضوں سے ملا ہے۔
اقبال کے مسودوں اور بیاضوں کا میں نے دقّتِ نظر سے مطالعہ کیا ۔ ان بیاضوں کی بدولت اختلاف متن کے بہت سے مسائل بھی حل ہوئے ۔ دورانِ تحقیق اس امر کا بھی انکشاف ہوا کہ اقبال (ایکس شاعر) کے فرضی نام سے بھی اخبار میں لکھتے تھے۔ اس طرح کی بارہ نظمیں دریافت ہوئیں جو باقیات میں شامل کر لی گئیں ۔
راقم الحروف کو اس امر کا احساس ہے کہ اس کلیات میں نظموں کا پس منظر اور اختلافِ متن شامل نہیں ہے اور نہ متروکات کی وجہ بتائی گئی ہے ۔ یہ سب کچھ میرے پی ایچ ڈی کے مقالے میں شامل ہے۔ جو اس کلیات کی اشاعت کے بعد جلد ہی منظر عام پر آ جائے گا ۔ تحقیقی مقالے کی اشاعت سے پہلے میں اس کلیات کی اشاعت بوجوہ ضروری سمجھتا تھا اس لیے اصل مقالے کی اشاعت معرضِ التوا میں پڑی رہی ۔ میرے مقالے کو اس کلیات کا تتمہ یا جزو لاینفک سمجھنا چاہیے۔
زیر نظر کلیات باقیاتِ شعر کی تدوین میں زمانی ترتیب کا ہر ممکن خیال رکھا گیا ہے ۔ ادوار بنانے کے ساتھ ساتھ کلام کو اصناف وار مرتب کرنا بھی ضروری تھا ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ اسے زمانی ترتیب سے درج کیا جائے ۔ پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال نے اسے اسی ترتیب سے لکھا بھی ہو ۔
اقبال کے الحاقی کلام کو اس مجموعے میں جگہ نہیں دی گئی تاہم اس کی نشان دہی ضمیمے میں کر دی گئی ہے۔ تحقیقی مقالے کی تکمیل کے بعد جو کلام سامنے آیا اُسے میں نے ضمیمے میں شامل کر دیا ہے ۔ زمانی اعتبار سے اسے اپنے مقام پر ہونا چاہیے تھا لیکن کچھ مجبوریاں حائل رہیں ۔ تدوین کے آخری مراحل میں ایک اور نظم کے بارے میں معلوم ہوا کہ اقبال سے غلط طور پر منسوب ہے چنانچہ اسے کلیات سے نکال دیا گیا ۔ دیباچہ لکھتے وقت دو اور اشعار کا اضافہ ہوا جسے ضمیمے میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ آخری پروف نکلنے کے بعد خالد نظیر صوفی کی کتاب ’’اقبال دورن خانہ‘‘(حیات اقبال کا خانگی پہلو) منظر ِ عام پر آئی جس کی بدولت دس نئے اشعار کا اضافہ ہوا جسے واقعی’’ غیر مطبوعہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ایسے کلام کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے جس کا اقبال سے انتساب ابھی تحقیق طلب ہے۔
کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال کی تدوین کا اصل مقصد اقبال کے ذہنی ارتقا کی مختلف کڑیوں کو مربوط کرنا ہے اور اقبال کے تصورات فن کا پوری طرح احاطہ کرنا ہے ۔ چنانچہ اس کلام کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ کلیات کی تدوین کا جواز میں نے مقدمہ میں فراہم کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کلام سے جو نتائج بر آمد ہوئے ہیں، ان کی نشان دہی بھی میں نے مقدمے میں کر دی ہے۔
دورانِ تحقیق جن لوگوں کا تعاون مجھے حاصل رہا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے جسے دیباچے میں شامل نہیں کیا جا رہا ۔ یہ قرض اصل مقالے کی اشاعت کے وقت ادا ہو گا۔ فی الحال اقبال اکادمی کے موجودہ ناظم محمد سہیل عمر صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے مجھ سے یہ کام مکمل کرانے کے لیے متعدد انتظامی گُر آزمائے اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ اللہ اُن کے درجات بلند کرے ۔
ڈاکٹر صابر کلوروی
صدر شعبہ اردو ، پشاور یونیورسٹی
شعری باقیات کی تدوین نو:
(جواز ، مسائل اور طریقہ کار)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کلام کو علامہ نے اپنی زندگی میں پسند نہیں کیا اسے ہم کیوں تحقیق اور تنقید کا موضوع بنائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تنقیدی رجحانات اب ۱۹۲۴ء کی نسبت بہت حد تک بدل چکے ہیں ۔ فن کار کے ضمن میں ’کیا‘ کی اہمیت کے ساتھ ’ کیوں ‘ کی اہمیت بھی تسلیم کی جا چکی ہے ۔ نفسیات نے تخلیق کے پیچھے تخلیق کار کے ذہنی عمل کی اتھا گہرائیوں میں جھانکنا سیکھ لیا ہے۔ شعر اور شعور کے رشتے واضح ہو چکے ہیں ۔ ایسی شاعری کے پیچھے جسے اقبال پیغمبری کا جزو قرار دیتے ہیں ایک زبر دست شخصیت کی قوتِ متخیّلہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شاعر کے ذہنی ارتقاء کی سرگذشت کا بیان بھی نقاد کا منصب ٹھہرا ہے۔ خود علامہ کو بھی اپنے دل و دماغ کی سرگذشت سے خاصی دلچسپی رہی ہے ۔ کیا باقیاتِ شعر اقبال کے اس عظیم الشان ذخیرے سے صرفِ نظر کر کے ان گمشدہ کڑیوں کو تلاش کرنا ممکن ہے؟
اقبال کے زیر بحث باقیات اقبال کے نظریاتی اور فکری ردّ و قبول کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں ۔ ان سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کا ذہن مختلف اوقات میں کِن کِن واقعات اور تحریکوں سے متاثر رہا اور اس نے اقبال کی شاعری کی مجموعی فضا کو کہاں تک متاثر کیا ۔ فکری لہروں کی صدائے بازگشت اقبال کے متداول کلام میں بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس میں وہ گھن گرج نہیں جو اس کلام میں موجود ہے جسے علامہ نے ترک کر دیا تھا ۔
نقادوں نے اس امر پر بہت زیادہ زور دیا ہے کہ کسی فنکار کے فن کا صحیح جائزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب ہم اس فنکار کے ذاتی حالات اور شخصیت سے آگاہ ہوں۔ فن پارے کو فنکار سے جُدا کر کے دیکھنے کی کوشش غلط راستوں پر ڈال سکتی ہے ۔ کسی اور فنکار کے بارے میں یہ بات درست ہو نہ ہو اقبال کے سلسلے میں بالکل درست ہے ۔ اقبال کی بعض دلچسپیاں مشاعروں کے سلسلے میں سفر اور ان کی سوانح حیات کے کئی پہلو اور زاویے متروک کلام میں موجود ہیں۔ اپنے معاصرین سے علامہ کے تعلق پر اس کلام سے بہت روشنی پڑتی ہے ۔ مثلاً اس سے حالی ، شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد سے اقبال کے روابط کی نوعیت کیا تھی اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد علامہ کی نظم ’’نالہ یتیم‘‘ سُن کر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
’’میں نے دبیر اور انیس کی بہت نظمیں سنی ہیں مگر ایسی دل شگاف نظم کبھی نہیں سنی‘‘ ۱
اقبال کے قطعات تاریخی اور بعض دیگر نظموں کے واسطے سے ہمیں اقبال کے بعض ایسے احباب کے بارے میں علم ہوتا ہے جن کا ذکر ان کی سوانحی کتابوں میںکم ہی دیکھنے میںآتا ہے ۔ مثلاً محبوب خان حامد ، سلطان اسمعیل جان، شیخ عبدالحق ، سید نادر حسین تحصیلدار بھیرہ، لیڈی شہاب الدین ، فقیرا خان جدون اور نادر کاکوروی وغیرہ ۔
باقیات کا مطالعہ درج ذیل حوالوں سے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
اقبال کی سوانح
اقبال کے باقیات شعر سے ان کی سوانح کی بعض تفصیلات معلوم ہوتی ہیں ۔ مثلاً
(۱) داغ نے اقبال کو حیدر آباد (دکن) آنے کی باقاعدہ دعوت دی تھی اس کا اشارہ اقبال کے ایک شعر میں ملتا ہے ؎
یہی ہے جو شوقِ ملاقاتِ حضرت
تو دیکھیں گے اک بار ملک دکن بھی۲
اقبال، انجمن مسلمانان کشمیری کے جلسوں میں سرگرمی سے شریک ہو کر نظمیں پڑھتے ہیں اور بطور سیکریٹری اپنی انتظامی صلاحیتوں کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہیں۔ وزیر نظام سرکشن پرشاد اقبال کی شاعری کو پسند کرتے ہیں ۔ اس کا اظہار بھی ان باقیات سے ہوتا ہے مثلاً یہ شعر
نہ قدر ہو مرے اشعار کی گراں کیوں کر
پسند ان کو وزیرِ نظام کرتے ہیں۳
اقبال نے ایک زمانے میں غزل گوئی ترک کر دی تھی اس کا ثبوت بھی ان کے باقیات سے مل جاتا ہے ؎
ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے
یہ غزل لکھی ہمایوں کو سنانے کے لیے
اقبال کی پہلی شادی گجرات میں ہوئی تھی ۔اقبال کا یہ شعر ان کی ناکام ازدواجی زندگی پر عمدہ روشنی ڈالتا ہے ؎
ہو گیا اقبال قیدی محفلِ گجرات کا
کام کیا اخلاق کرتے ہیں مگر صیّاد کا۴
اقبال کا حسب ذیل یہ شعر اس امر کی تردید کرتا ہے کہ ارشد گورکانی اقبال کے استاد تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موصوف سے اقبال کے محض دوستانہ مراسم تھے اور وہ کبھی کبھی ارشد کو اپنا کلام سنا کر داد حاصل کرتے تھے ؎
ارشد و رافت سے ہوں اقبال خواہانِ داد
آبداری میں ہیں یہ اشعار گوہر کا جواب
متداول کلام کی بہتر تفہیم
باقیاتِ شعر اقبال کا مطالعہ اقبال کے متداول کلام کی تفہیم میں بھی خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً اقبال کے متداول کلیات کے صفحہ ۴۹۰ پر ایک نظم ’جہاد‘ موجود ہے ۔ اس کا ابتدائی عنوان ’’بہااللہ‘‘ تھا ۔ آخری شعر میں اقبال نے ’’بہااللہ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک شعر شامل کیا تھا جو یہ تھا :
میں تو بہا کی نکتہ رسی کا ہوں معترف
جس نے کہا فرنگ سے ترکِ جہاد کر
اگر اس شعر کو متداول کلام کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو نظم کے پس منظر اور تشریح میں بہت آسانی رہتی ہے۔ اقبال کے شارحین نے اس پس منظر کی غیر موجودگی میں نظم ’’جہاد‘‘ کی جو تشریح کی ہے وہ ناقص اور نا مکمل ہے اور اقبال کے اصل خیال کی کما حقہ ترجمانی نہیں کرتی۔
علامہ کے متروکات کا مطالعہ نظموں کے عنوان کے تناظر میں کیا جائے تو بھی بعض دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً عنوانات میں تبدیلی سے بھی شاعر کا مافی الضمیرسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً علامہ کی نظم ’’بلاد اسلامیہ‘‘ کا ابتدائی عنوان ’’مدینہ النبیؐ ‘‘ تھا نظم کے ابتدائی اشعار’’بلاد اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کم اور ’’مدینہ النبیؐ ‘‘ کے عنوان سے زیادہ میل کھاتے ہیں۔
اقبال کے متداول کلام میں کئی وجوہ سے بعض اغلاط د ر آئی ہیں۔ کلامِ اقبال کو اس طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کے لیے متروکات کا مطالعہ ایک حد تک ہماری معاونت کرے گا۔ ان اشعار سے کلامِ اقبال کی صحیح زمانی ترتیب کے تعین میں بھی خاصی مدد ملے گی جس سے فکری ادوار کا صحیح تعین کیا جا سکے گا۔ اقبال کا متداول کلام ان کی ابتدائی غزل گوئی کے ضمن میں کم معلومات فراہم کرتا ہے ۔ جبکہ باقیات اس کمی کو بہت حد تک پوری کرتے ہیں ۔
متداول کلام کی ابتدائی شکل میں قطع و برید سے اقبال نے اپنے کلام کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی لیکن بندوں میں مصرعوں کی تعداد میں یکسانیت برقرار نہ رہ سکی ایک ہی نظم کے ایک بند میں سات اشعارہیں اور دوسرے میں تین ۔ شاید اسی بنا پر کلیم الدین احمد کو علامہ پر اعتراضات کا جواز میسر آ گیا اور انہوں نے علامہ کی بعض نظموں میں فکری ربط اور توازن کی کمی کو خاص طور پر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ علامہ کے شعری آثار ان الجھنوں کو دور کرتے ہیں اور ہمیں اقبال کے اصل خیالات اور افکار کو سمجھنے کے لیے وسیع تناظر فراہم کرتے ہیں۔
دیگر شعرا کے اثرات
اقبال کے متروک کلام سے اقبال پر دیگر شعرا کے اثرات کا بھی صحیح تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً علامہ کی ابتدائی غزلوں میں داغ ، امیر اور دیگر ہم عصر شعرا کے اثرات موجود ہیں ۔ غالب اور داغ کے اثرات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
غالب کا اثر
لکھتا ہوں شعر دیدئہ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ بابِ گلستاں کیے ہوئے
بوتے ہیں نخل آہ کو باغِ جہان میں
ممنونِ آب دیدئہ گریاں کیے ہوئے
(اشک خون)
داغ کا اثر
یہ جوانی کے ولولے اے دل
دو گھڑی کے اُبال ہوتے ہیں
ذکر کچھ آپ کا بھی ہے ان میں
قبر میں جو سوال ہوتے ہیں
’اکبری‘ رنگ کے متعدد قطعات ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نہیں ہو سکے ۔ اکبر کے اثرات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے باقیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
تفضیل علیؓ کے اشعار
حضرت علیؓ سے علامہ کی بے پناہ عقیدت کا اظہار جتنا متروک کلام سے ہوتا ہے اتنا مدون کلام سے نہیں ہوتا ،شاید اسی بنا پر ایک زمانے میں علامہ کو تشیع سے منسوب کیا گیا ۔ ممکن ہے یہی پہلو ان اشعار کو ترک کرنے کا سبب بنا ہو۔ کہتے ہیں :۔
ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؓ کا نام اقبال
کہ پیاس رُوح کی بجھتی ہے اس نگینے سے
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہ گار بوترابی ہے
اقبال کی فرضی نام سے لکھی گئی نظمیں
باقیات شعر اقبال میں شامل بعض نظموں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ علامہ نے فرضی نام (ایکس شاعر) سے بھی کچھ نظمیں لکھی تھیں۔ یہ نظمیں جن کا عمومی انداز طنزیہ اور مزاحیہ ہے اقبال کی اُس کشمکش کو ظاہر کرتی ہیں کہ ایک طرف تو وہ قائد اعظم کے حکم سے یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، دوسری طرف اس پارٹی کے بعض لیڈروں کی منافقت کا پردہ بھی چاک کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی ان بارہ غیر مدوّن نظموںمیں اتحادیوں اور قادیانیوں پر جو چوٹیں کی گئی ہیں متداول کلام میں ان کا کوئی نمونہ موجود نہیں ۔
اقبال کی تاریخ گوئی
علامہ کے متداول کلام میں علامہ کی تاریخ گوئی کا کوئی نمونہ شامل نہیں کیا گیا ۔ علامہ کے ہاں یہ فن داغ اور معاصر شعرا کے مطالعے سے آیا ہے۔ وہ آخر وقت تک تاریخ گوئی نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ اقبال نے دوسرے شعرا کی تخلیقات کے نئے اور خوبصورت تراجم بھی کیے ہیں۔ جن سے بعض انگریزی شعرا سے اقبال کی اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمہ کے فن میں ان کی مہارت کا ثبوت ان کی یہی نظمیں ہیں ۔ علامہ کبھی اصل خیال پر اضافہ کرتے ہیں اور یوں ان کے ہاں ترجمہ تخلیق کا درجہ اختیار کرتا نظر آتا ہے۔
اقبال کی فرمائشی نظمیں
احباب کی فرمائشیں بھی بعض اوقات اقبال کو شعر گوئی پر مجبور کر دیتی تھیں ۔ اس طرح کا کلام اقبال کی تاریخ گوئی میں بھی موجود ہے ۔ باقیات شعر اقبال کی بعض دیگر نظمیں بھی اسی قبیل کی ہیں مثلاًنظم ’’شکریہ‘‘ اُن کے حیدر آباد کے روابط کی مظہر ہے ۔ ’’شکریہ انگشتری‘‘ منشی سراج الدین سے علامہ کے مخلصانہ تعلقات کی مظہر ہے ۵ ۔ ان متروکات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو بعض اوقات احباب کی فرمائشوں کی تعمیل بھی کرنی پڑتی تھی۔ مثلاً ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا توسر ذوالفقار علی خان کی فرمائش پر وہ ’’اشک خون‘‘ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ’پنجاب کا خواب‘ ، مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کی فرمائش پر لکھی جاتی ہے۔ لاٹ صاحب اور ڈائریکٹر کا خیر مقدم بھی اسی قبیل کی نظم ہے ۔ ان فرمائشی نظموں میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جو انجمن حمایت اسلام کے سٹیج سے سنائی گئی تھیں ۔ ان نظموں کا مقصد انجمن کے لیے چندہ فراہم کرنا تھا ۔ علامہ کی برجستہ گوئی ’’اہل درد‘‘ کے ۲۹ اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے اور مولوی عبداللہ بسمل کی فرمائش کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۶۔
اولیاء اللہ سے عقیدت
اقبال کے مکاتیب کی طرح ان کے شعری باقیات میں بھی اولیاء اللہ سے عقیدت کے کئی نمونے ہمیں مل جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ سے محبت کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ اپنی ایک ذاتی پریشانی کو رفع کرنے کے لیے خواجہ نظام الدین اولیاء کے نام ایک نظم لکھتے ہیں اور اسے مزار پر بلند آواز سے پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اس نظم کا نام ’’برگِ گل‘‘ ہے۔
راگ اور موسیقی سے دلچسپی
اقبال کی میٹرک کی کتابوں میں موسیقی کے بعض سُروںکے بارے میں حوالے ملتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو راگ اور موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی۔ ان کی دلچسپی کا اظہار باقیات کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے ؎
لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال
راگ ہے دین مرا ، راگ ہے ایمان میرا
فکری ارتقا کے نمونے
فکری لحاظ سے اقبال نے کن خیالات کو ترک کر دیا؟ اس کا بہترین اظہار اقبال کے باقیات شعری سے ہوتا ہے ۔ وطنیت ،قومیت نیز تصّوف ، وحدت الوجود ، قادیانیت اور دو قومی نظریے کے حوالے سے اقبال کے ان اشعار میں ایسا مواد موجود ہے جس سے تحقیق کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔ مثلاً ان وجوہات کا علم ہوتا ہے جو ایک زمانے میں اقبال اور قائد اعظم میں اختلاف کا موجب تھے ۔
اقبال کا فنی ارتقا
ان اشعار سے نہ صرف اقبال کے ذہنی ارتقا کی کڑیاں مرتب ہو سکتی ہیں بلکہ فنی ارتقا کی پوری کیفیت بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ مثلاً ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو فن کی بلندیوں پر پہنچانے والی اصل چیز ان کی وہ محنت ہے جو وہ اپنے کلام پر مسلسل کرتے رہتے تھے ۔ اقبال کی آفاقیت کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے کلام سے ایسے اشعار نکال دیتے ہیں جن میں شخصی اور مقامی پن زیادہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے بیشتر فرمایشی اشعار اپنے کلام میں شامل ہی نہیں کیے اشعار کی تراش خراش اور پھر اس کے انتخاب میں جگر کاوی کے نتیجے میں اقبال کا جو کلام ہمارے سامنے آیا ہے اُس نے جغرافیائی سرحدوں کو پامال کر دیا اور پوری دنیا کے دل کی دھڑکن بن گیا۔
باقیاتِ شعرِ اقبال نہ صرف علامہ کے نظریات کا پس منظر فراہم کرتے ہیں بلکہ عوام کے نظریۂ فن پر بھی کماحقہ روشنی ڈالتے ہیں۔ شاعر اپنے کلام کا بہترین ناقدنہ سہی لیکن اپنے کلام کے فن اور فکری پہلوئوں پر اس کی اچھی خاصی نظر ہوتی ہے ۔ کس شعر کو ترک کرنے یا اس میں اصلاح کرنے کے عملی پہلو کے پیچھے شاعر کا زبر دست تنقیدی شعور کار فرما ہوتا ہے ۔ وہ اپنے کلام کو نظریاتی اور فنی دونوں پہلوئوں سے دیکھتا ہے، پرکھتا ہے۔ شاعر کا شعری ذوق اس مرحلے پر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔چنانچہ رد و قبول کی بھٹی سے اپنے کلام کو گذار کر وہ ہمارے سامنے اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ جتنا بڑا شاعر ہو گا اتنا ہی اس میں تنقیدی شعور بھی زیادہ ہو گا۔ ترمیم و تنسیخ کے عمل کا آغاز عام طور پر اسی وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب کوئی خیال ، جذبہ یا واقعہ شاعر کے ذہن میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے ۔ چنانچہ جو تخلیق اس ارتعاش کے نتیجے میں عالمِ وجود میں آتی ہے وہ ذہن کے پراسرار گوشوں سے گذر کر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر تمام تخلیقی عمل کو پوری طرح سمجھ لینا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ لہٰذا اس پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے ۔ لیکن جب کوئی تخلیق زینتِ قرطاس بنتی ہے اور پھر اس کی نوک پلک درست کی جاتی ہے تو یہ تبدیلیاں اس لمحے میں شاعر کی تمام نفسیاتی کیفیتوں کا مظہر ہوتی ہیں ۔ چنانچہ اِن اصطلاحات اور تبدیلیوں کا شاعر کے عہد اور ماحول کے پس منظر میں تجزیہ کیا جائے تو بعض اوقات اس فنکار کے متعلق حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں ۔ اقبال کے شعری آثار تین طرح کے ہیں:۔
(الف) وہ نظمیں ؍ غزلیں ؍ قطعات و رباعیات جنہیں علامہ نے مختلف وجوہ کی بنا پر ترک کر دیا تھا ۔
(ب) جو نظمیں علامہ نے کلام میں اشاعت کے لیے منتخب کی تھیں ان کے بعض اشعار ترک کر دیے گئے۔
(ج) بعض اشعار میں علامہ نے اصلاحات کی تھیں ۔ ان کی بیاضوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مصرعے کو دو ، دو اور بعض اوقات تین یا چار دفعہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ امریہ ہے کہ بعض مصرعوں میں کی جانے والی تمام اصلاحات علامہ کو پسند نہیں آتیں اور وہ ابتدائی مصرعے کو بحال کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے متعدد اشعار اور مصرعے اب علامہ کے متداول کلام میں موجود ہیں۔ کلامِ اقبال کے اس حصے کی نشاندہی ہونی چاہیے تاکہ ایسے اشعار کی تفہیم و تشریح میں اس پہلو کو سامنے رکھا جا سکے کہ اقبال فنی یا فکری لحاظ سے ان اشعار سے مطمئن نہیں تھے ۔ عدم اطمینان کا یہ فنی یا نفسیاتی تجزیہ اقبال کے بارے میں ہماری معلومات میں ضرور اضافہ کرے گا۔
اقبال کی اپنے کلام پر اصلاح عام طور پر ان کے شعر کو معیاری بنا دیتی ہے ۷ ۔ اس سے علامہ کے تنقیدی شعور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اصلاح کا یہ عمل بانگِ دراسے ارمغان حجاز تک اسی شد و مد کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ۸ علامہ کے متروکات و اصلاحات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو شعر کے فنی پہلوئوں سے خاصی دلچسپی تھی ۔ وہ اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ فنِ شاعری سے ناواقفیت کا اظہار جس کا ذکر ان کے کئی خطوں میں ہوا ہے، محض انکسار ہے۔ علامہ کے متروکات اور اصلاحات کا مطالعہ ان کے متداول کلام کو سمجھنے میں ہماری بہت معاونت کر سکتا ہے۔
(متروک اردو کلام )
مرتبہ
ڈاکٹر صابر کلورُوی
اقبال اکادمی پاکستان
انتساب
اپنے والد
شاہ میر خان
(متوفٰی :۷ دسمبر ۱۹۹۰ئ)
کے نام
جنہیں اس کام کی تکمیل کی بڑی حسرت تھی
انتباہ
زیر نظر مجموعے میں شامل اشعار کا تقریباً ۹۰فیصد حصہ ایسا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر ترک کر دیا تھا۔ لہٰذا اس کلام کو درسی کتابوں میں شامل کرنا یا ریڈیو اور ٹی وی پر گانا مناسب نہیں ہو گا۔ البتہ اقبال کے فکری و فنی ارتقا کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔ لیکن حوالہ دیتے وقت ’’باقیات‘‘ کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ تاکہ اسے اقبال کے متداول کلام سے ممیز کیا جا سکے ۔
(صابر کلورُوی )
فہرست
دیباچہ از ڈاکٹر صابرکلوروی ۱
شعری باقیات کی تدوین نو(جواز، مسائل اور طریقہ کار ۳
دورِ اوّل کا کلام(۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۸ئ) ۲۷۔۳۲۱
’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات
٭ مکمل متروکہ نظمیں : ۲۹
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۱۷۰
٭ مکمل متروکہ غزلیں ۲۳۷
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۲۹۵
٭ مکمل قطعات ؍ رباعیات ۳۱۳
دور ِ دوم کا کلام (۱۹۰۹ء تا ۱۹۲۴ئ) ۳۲۳۔۴۳۴
’’بانگِ درا‘‘ کی اشاعت تک
٭ مکمل متروکہ نظمیں ۳۲۵
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۳۶۹
٭ مکمل متروکہ غزلیں ۳۹۹
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۴۱۱
٭ ظریفانہ قطعات ۴۱۴
٭ ظریفانہ قطعات کے جزوی متروکات ۴۲۷
٭ قطعات؍ رباعیات ۴۲۸
دورِ سوم کا کلام (۱۹۲۵ ء تا ۱۹۳۸ئ) ۴۳۵۔۵۰۲
’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘
’’ارمغان حجاز‘‘ کے متروکات
٭ مکمل متروکہ نظمیں ؍قطعات ۴۳۷
٭ نظموں کے جزوی متروکات ۴۶۰
٭ غزلوں کے جزوی متروکات ۴۹۴
٭ متروکہ قطعات ؍ رباعیات ۴۹۷
متفرقات ۵۰۳۔۵۳۶
(۱) تاریخیں اور مادہ ہائے تاریخ ۵۰۵
(۲) بدیہہ گوئی ؍ فردیات ۵۲۶
ضمیمہ جات ۵۳۷۔۵۵۴
(الف) نو دریافت کلامِ اقبال ۵۳۹
(ب) تحقیق طلب : کلامِ اقبال ۵۴۶
(ج) اقبال کا الحاقی کلام ۵۵۰
دیباچہ
کلیاتِ باقیات شعر اقبال (اردو) پیش خدمت ہے ۔ یہ کلیات میرے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’باقیاتِ شعرِ اقبال : تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘‘ کا حاصلِ ضمنی (By Product) ہے۔ جب میں نے اقبال کے شعری باقیات پر تحقیق شروع کی تو میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ باقیات کی تلاش اور فراہمی کا تھا ۔ باقیات کے موضوع پر چند کتب موجود تھیں لیکن اِن میں بیشتر کلام مشترک تھا اور متن کی بے شمار اغلاط موجود تھیں۔ اپنی تحقیق کے دوران میں، میں نے اولین مآخذ کی تلاش جاری رکھی اور بڑی حد تک ان کی اغلاط کو درست کیا۔ میں نے صرف دستیاب کلام پر بھروسا نہیں کیا بلکہ غیر مدون اور غیر مطبوعہ کلام بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ الحمدللہ میرے اس تحقیقی کام کی بدولت ساڑھے سات سو کے قریب اشعار کا باقیات میں اضافہ ہوا جن میں دو تہائی کلام غیر مطبوعہ ہے جو اقبال کی بیاضوں سے ملا ہے۔
اقبال کے مسودوں اور بیاضوں کا میں نے دقّتِ نظر سے مطالعہ کیا ۔ ان بیاضوں کی بدولت اختلاف متن کے بہت سے مسائل بھی حل ہوئے ۔ دورانِ تحقیق اس امر کا بھی انکشاف ہوا کہ اقبال (ایکس شاعر) کے فرضی نام سے بھی اخبار میں لکھتے تھے۔ اس طرح کی بارہ نظمیں دریافت ہوئیں جو باقیات میں شامل کر لی گئیں ۔
راقم الحروف کو اس امر کا احساس ہے کہ اس کلیات میں نظموں کا پس منظر اور اختلافِ متن شامل نہیں ہے اور نہ متروکات کی وجہ بتائی گئی ہے ۔ یہ سب کچھ میرے پی ایچ ڈی کے مقالے میں شامل ہے۔ جو اس کلیات کی اشاعت کے بعد جلد ہی منظر عام پر آ جائے گا ۔ تحقیقی مقالے کی اشاعت سے پہلے میں اس کلیات کی اشاعت بوجوہ ضروری سمجھتا تھا اس لیے اصل مقالے کی اشاعت معرضِ التوا میں پڑی رہی ۔ میرے مقالے کو اس کلیات کا تتمہ یا جزو لاینفک سمجھنا چاہیے۔
زیر نظر کلیات باقیاتِ شعر کی تدوین میں زمانی ترتیب کا ہر ممکن خیال رکھا گیا ہے ۔ ادوار بنانے کے ساتھ ساتھ کلام کو اصناف وار مرتب کرنا بھی ضروری تھا ہر ممکن کوشش کی گئی ہے کہ اسے زمانی ترتیب سے درج کیا جائے ۔ پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اقبال نے اسے اسی ترتیب سے لکھا بھی ہو ۔
اقبال کے الحاقی کلام کو اس مجموعے میں جگہ نہیں دی گئی تاہم اس کی نشان دہی ضمیمے میں کر دی گئی ہے۔ تحقیقی مقالے کی تکمیل کے بعد جو کلام سامنے آیا اُسے میں نے ضمیمے میں شامل کر دیا ہے ۔ زمانی اعتبار سے اسے اپنے مقام پر ہونا چاہیے تھا لیکن کچھ مجبوریاں حائل رہیں ۔ تدوین کے آخری مراحل میں ایک اور نظم کے بارے میں معلوم ہوا کہ اقبال سے غلط طور پر منسوب ہے چنانچہ اسے کلیات سے نکال دیا گیا ۔ دیباچہ لکھتے وقت دو اور اشعار کا اضافہ ہوا جسے ضمیمے میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ آخری پروف نکلنے کے بعد خالد نظیر صوفی کی کتاب ’’اقبال دورن خانہ‘‘(حیات اقبال کا خانگی پہلو) منظر ِ عام پر آئی جس کی بدولت دس نئے اشعار کا اضافہ ہوا جسے واقعی’’ غیر مطبوعہ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ایسے کلام کی نشان دہی بھی کر دی گئی ہے جس کا اقبال سے انتساب ابھی تحقیق طلب ہے۔
کلیاتِ باقیاتِ شعر اقبال کی تدوین کا اصل مقصد اقبال کے ذہنی ارتقا کی مختلف کڑیوں کو مربوط کرنا ہے اور اقبال کے تصورات فن کا پوری طرح احاطہ کرنا ہے ۔ چنانچہ اس کلام کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ کلیات کی تدوین کا جواز میں نے مقدمہ میں فراہم کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کلام سے جو نتائج بر آمد ہوئے ہیں، ان کی نشان دہی بھی میں نے مقدمے میں کر دی ہے۔
دورانِ تحقیق جن لوگوں کا تعاون مجھے حاصل رہا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے جسے دیباچے میں شامل نہیں کیا جا رہا ۔ یہ قرض اصل مقالے کی اشاعت کے وقت ادا ہو گا۔ فی الحال اقبال اکادمی کے موجودہ ناظم محمد سہیل عمر صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے مجھ سے یہ کام مکمل کرانے کے لیے متعدد انتظامی گُر آزمائے اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ اللہ اُن کے درجات بلند کرے ۔
ڈاکٹر صابر کلوروی
صدر شعبہ اردو ، پشاور یونیورسٹی
شعری باقیات کی تدوین نو:
(جواز ، مسائل اور طریقہ کار)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کلام کو علامہ نے اپنی زندگی میں پسند نہیں کیا اسے ہم کیوں تحقیق اور تنقید کا موضوع بنائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تنقیدی رجحانات اب ۱۹۲۴ء کی نسبت بہت حد تک بدل چکے ہیں ۔ فن کار کے ضمن میں ’کیا‘ کی اہمیت کے ساتھ ’ کیوں ‘ کی اہمیت بھی تسلیم کی جا چکی ہے ۔ نفسیات نے تخلیق کے پیچھے تخلیق کار کے ذہنی عمل کی اتھا گہرائیوں میں جھانکنا سیکھ لیا ہے۔ شعر اور شعور کے رشتے واضح ہو چکے ہیں ۔ ایسی شاعری کے پیچھے جسے اقبال پیغمبری کا جزو قرار دیتے ہیں ایک زبر دست شخصیت کی قوتِ متخیّلہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ شاعر کے ذہنی ارتقاء کی سرگذشت کا بیان بھی نقاد کا منصب ٹھہرا ہے۔ خود علامہ کو بھی اپنے دل و دماغ کی سرگذشت سے خاصی دلچسپی رہی ہے ۔ کیا باقیاتِ شعر اقبال کے اس عظیم الشان ذخیرے سے صرفِ نظر کر کے ان گمشدہ کڑیوں کو تلاش کرنا ممکن ہے؟
اقبال کے زیر بحث باقیات اقبال کے نظریاتی اور فکری ردّ و قبول کی ایک خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں ۔ ان سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ کا ذہن مختلف اوقات میں کِن کِن واقعات اور تحریکوں سے متاثر رہا اور اس نے اقبال کی شاعری کی مجموعی فضا کو کہاں تک متاثر کیا ۔ فکری لہروں کی صدائے بازگشت اقبال کے متداول کلام میں بھی سنائی دیتی ہے لیکن اس میں وہ گھن گرج نہیں جو اس کلام میں موجود ہے جسے علامہ نے ترک کر دیا تھا ۔
نقادوں نے اس امر پر بہت زیادہ زور دیا ہے کہ کسی فنکار کے فن کا صحیح جائزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب ہم اس فنکار کے ذاتی حالات اور شخصیت سے آگاہ ہوں۔ فن پارے کو فنکار سے جُدا کر کے دیکھنے کی کوشش غلط راستوں پر ڈال سکتی ہے ۔ کسی اور فنکار کے بارے میں یہ بات درست ہو نہ ہو اقبال کے سلسلے میں بالکل درست ہے ۔ اقبال کی بعض دلچسپیاں مشاعروں کے سلسلے میں سفر اور ان کی سوانح حیات کے کئی پہلو اور زاویے متروک کلام میں موجود ہیں۔ اپنے معاصرین سے علامہ کے تعلق پر اس کلام سے بہت روشنی پڑتی ہے ۔ مثلاً اس سے حالی ، شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد سے اقبال کے روابط کی نوعیت کیا تھی اس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد علامہ کی نظم ’’نالہ یتیم‘‘ سُن کر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
’’میں نے دبیر اور انیس کی بہت نظمیں سنی ہیں مگر ایسی دل شگاف نظم کبھی نہیں سنی‘‘ ۱
اقبال کے قطعات تاریخی اور بعض دیگر نظموں کے واسطے سے ہمیں اقبال کے بعض ایسے احباب کے بارے میں علم ہوتا ہے جن کا ذکر ان کی سوانحی کتابوں میںکم ہی دیکھنے میںآتا ہے ۔ مثلاً محبوب خان حامد ، سلطان اسمعیل جان، شیخ عبدالحق ، سید نادر حسین تحصیلدار بھیرہ، لیڈی شہاب الدین ، فقیرا خان جدون اور نادر کاکوروی وغیرہ ۔
باقیات کا مطالعہ درج ذیل حوالوں سے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
اقبال کی سوانح
اقبال کے باقیات شعر سے ان کی سوانح کی بعض تفصیلات معلوم ہوتی ہیں ۔ مثلاً
(۱) داغ نے اقبال کو حیدر آباد (دکن) آنے کی باقاعدہ دعوت دی تھی اس کا اشارہ اقبال کے ایک شعر میں ملتا ہے ؎
یہی ہے جو شوقِ ملاقاتِ حضرت
تو دیکھیں گے اک بار ملک دکن بھی۲
اقبال، انجمن مسلمانان کشمیری کے جلسوں میں سرگرمی سے شریک ہو کر نظمیں پڑھتے ہیں اور بطور سیکریٹری اپنی انتظامی صلاحیتوں کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہیں۔ وزیر نظام سرکشن پرشاد اقبال کی شاعری کو پسند کرتے ہیں ۔ اس کا اظہار بھی ان باقیات سے ہوتا ہے مثلاً یہ شعر
نہ قدر ہو مرے اشعار کی گراں کیوں کر
پسند ان کو وزیرِ نظام کرتے ہیں۳
اقبال نے ایک زمانے میں غزل گوئی ترک کر دی تھی اس کا ثبوت بھی ان کے باقیات سے مل جاتا ہے ؎
ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے
یہ غزل لکھی ہمایوں کو سنانے کے لیے
اقبال کی پہلی شادی گجرات میں ہوئی تھی ۔اقبال کا یہ شعر ان کی ناکام ازدواجی زندگی پر عمدہ روشنی ڈالتا ہے ؎
ہو گیا اقبال قیدی محفلِ گجرات کا
کام کیا اخلاق کرتے ہیں مگر صیّاد کا۴
اقبال کا حسب ذیل یہ شعر اس امر کی تردید کرتا ہے کہ ارشد گورکانی اقبال کے استاد تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ موصوف سے اقبال کے محض دوستانہ مراسم تھے اور وہ کبھی کبھی ارشد کو اپنا کلام سنا کر داد حاصل کرتے تھے ؎
ارشد و رافت سے ہوں اقبال خواہانِ داد
آبداری میں ہیں یہ اشعار گوہر کا جواب
متداول کلام کی بہتر تفہیم
باقیاتِ شعر اقبال کا مطالعہ اقبال کے متداول کلام کی تفہیم میں بھی خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً اقبال کے متداول کلیات کے صفحہ ۴۹۰ پر ایک نظم ’جہاد‘ موجود ہے ۔ اس کا ابتدائی عنوان ’’بہااللہ‘‘ تھا ۔ آخری شعر میں اقبال نے ’’بہااللہ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک شعر شامل کیا تھا جو یہ تھا :
میں تو بہا کی نکتہ رسی کا ہوں معترف
جس نے کہا فرنگ سے ترکِ جہاد کر
اگر اس شعر کو متداول کلام کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو نظم کے پس منظر اور تشریح میں بہت آسانی رہتی ہے۔ اقبال کے شارحین نے اس پس منظر کی غیر موجودگی میں نظم ’’جہاد‘‘ کی جو تشریح کی ہے وہ ناقص اور نا مکمل ہے اور اقبال کے اصل خیال کی کما حقہ ترجمانی نہیں کرتی۔
علامہ کے متروکات کا مطالعہ نظموں کے عنوان کے تناظر میں کیا جائے تو بھی بعض دلچسپ نتائج سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً عنوانات میں تبدیلی سے بھی شاعر کا مافی الضمیرسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً علامہ کی نظم ’’بلاد اسلامیہ‘‘ کا ابتدائی عنوان ’’مدینہ النبیؐ ‘‘ تھا نظم کے ابتدائی اشعار’’بلاد اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کم اور ’’مدینہ النبیؐ ‘‘ کے عنوان سے زیادہ میل کھاتے ہیں۔
اقبال کے متداول کلام میں کئی وجوہ سے بعض اغلاط د ر آئی ہیں۔ کلامِ اقبال کو اس طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کے لیے متروکات کا مطالعہ ایک حد تک ہماری معاونت کرے گا۔ ان اشعار سے کلامِ اقبال کی صحیح زمانی ترتیب کے تعین میں بھی خاصی مدد ملے گی جس سے فکری ادوار کا صحیح تعین کیا جا سکے گا۔ اقبال کا متداول کلام ان کی ابتدائی غزل گوئی کے ضمن میں کم معلومات فراہم کرتا ہے ۔ جبکہ باقیات اس کمی کو بہت حد تک پوری کرتے ہیں ۔
متداول کلام کی ابتدائی شکل میں قطع و برید سے اقبال نے اپنے کلام کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی لیکن بندوں میں مصرعوں کی تعداد میں یکسانیت برقرار نہ رہ سکی ایک ہی نظم کے ایک بند میں سات اشعارہیں اور دوسرے میں تین ۔ شاید اسی بنا پر کلیم الدین احمد کو علامہ پر اعتراضات کا جواز میسر آ گیا اور انہوں نے علامہ کی بعض نظموں میں فکری ربط اور توازن کی کمی کو خاص طور پر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ علامہ کے شعری آثار ان الجھنوں کو دور کرتے ہیں اور ہمیں اقبال کے اصل خیالات اور افکار کو سمجھنے کے لیے وسیع تناظر فراہم کرتے ہیں۔
دیگر شعرا کے اثرات
اقبال کے متروک کلام سے اقبال پر دیگر شعرا کے اثرات کا بھی صحیح تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً علامہ کی ابتدائی غزلوں میں داغ ، امیر اور دیگر ہم عصر شعرا کے اثرات موجود ہیں ۔ غالب اور داغ کے اثرات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
غالب کا اثر
لکھتا ہوں شعر دیدئہ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ بابِ گلستاں کیے ہوئے
بوتے ہیں نخل آہ کو باغِ جہان میں
ممنونِ آب دیدئہ گریاں کیے ہوئے
(اشک خون)
داغ کا اثر
یہ جوانی کے ولولے اے دل
دو گھڑی کے اُبال ہوتے ہیں
ذکر کچھ آپ کا بھی ہے ان میں
قبر میں جو سوال ہوتے ہیں
’اکبری‘ رنگ کے متعدد قطعات ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نہیں ہو سکے ۔ اکبر کے اثرات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے باقیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
تفضیل علیؓ کے اشعار
حضرت علیؓ سے علامہ کی بے پناہ عقیدت کا اظہار جتنا متروک کلام سے ہوتا ہے اتنا مدون کلام سے نہیں ہوتا ،شاید اسی بنا پر ایک زمانے میں علامہ کو تشیع سے منسوب کیا گیا ۔ ممکن ہے یہی پہلو ان اشعار کو ترک کرنے کا سبب بنا ہو۔ کہتے ہیں :۔
ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؓ کا نام اقبال
کہ پیاس رُوح کی بجھتی ہے اس نگینے سے
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہ گار بوترابی ہے
اقبال کی فرضی نام سے لکھی گئی نظمیں
باقیات شعر اقبال میں شامل بعض نظموں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ علامہ نے فرضی نام (ایکس شاعر) سے بھی کچھ نظمیں لکھی تھیں۔ یہ نظمیں جن کا عمومی انداز طنزیہ اور مزاحیہ ہے اقبال کی اُس کشمکش کو ظاہر کرتی ہیں کہ ایک طرف تو وہ قائد اعظم کے حکم سے یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، دوسری طرف اس پارٹی کے بعض لیڈروں کی منافقت کا پردہ بھی چاک کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی ان بارہ غیر مدوّن نظموںمیں اتحادیوں اور قادیانیوں پر جو چوٹیں کی گئی ہیں متداول کلام میں ان کا کوئی نمونہ موجود نہیں ۔
اقبال کی تاریخ گوئی
علامہ کے متداول کلام میں علامہ کی تاریخ گوئی کا کوئی نمونہ شامل نہیں کیا گیا ۔ علامہ کے ہاں یہ فن داغ اور معاصر شعرا کے مطالعے سے آیا ہے۔ وہ آخر وقت تک تاریخ گوئی نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ اقبال نے دوسرے شعرا کی تخلیقات کے نئے اور خوبصورت تراجم بھی کیے ہیں۔ جن سے بعض انگریزی شعرا سے اقبال کی اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمہ کے فن میں ان کی مہارت کا ثبوت ان کی یہی نظمیں ہیں ۔ علامہ کبھی اصل خیال پر اضافہ کرتے ہیں اور یوں ان کے ہاں ترجمہ تخلیق کا درجہ اختیار کرتا نظر آتا ہے۔
اقبال کی فرمائشی نظمیں
احباب کی فرمائشیں بھی بعض اوقات اقبال کو شعر گوئی پر مجبور کر دیتی تھیں ۔ اس طرح کا کلام اقبال کی تاریخ گوئی میں بھی موجود ہے ۔ باقیات شعر اقبال کی بعض دیگر نظمیں بھی اسی قبیل کی ہیں مثلاًنظم ’’شکریہ‘‘ اُن کے حیدر آباد کے روابط کی مظہر ہے ۔ ’’شکریہ انگشتری‘‘ منشی سراج الدین سے علامہ کے مخلصانہ تعلقات کی مظہر ہے ۵ ۔ ان متروکات سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو بعض اوقات احباب کی فرمائشوں کی تعمیل بھی کرنی پڑتی تھی۔ مثلاً ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا توسر ذوالفقار علی خان کی فرمائش پر وہ ’’اشک خون‘‘ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ’پنجاب کا خواب‘ ، مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کی فرمائش پر لکھی جاتی ہے۔ لاٹ صاحب اور ڈائریکٹر کا خیر مقدم بھی اسی قبیل کی نظم ہے ۔ ان فرمائشی نظموں میں وہ نظمیں بھی شامل ہیں جو انجمن حمایت اسلام کے سٹیج سے سنائی گئی تھیں ۔ ان نظموں کا مقصد انجمن کے لیے چندہ فراہم کرنا تھا ۔ علامہ کی برجستہ گوئی ’’اہل درد‘‘ کے ۲۹ اشعار کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے اور مولوی عبداللہ بسمل کی فرمائش کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے ۶۔
اولیاء اللہ سے عقیدت
اقبال کے مکاتیب کی طرح ان کے شعری باقیات میں بھی اولیاء اللہ سے عقیدت کے کئی نمونے ہمیں مل جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ سے محبت کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ اپنی ایک ذاتی پریشانی کو رفع کرنے کے لیے خواجہ نظام الدین اولیاء کے نام ایک نظم لکھتے ہیں اور اسے مزار پر بلند آواز سے پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اس نظم کا نام ’’برگِ گل‘‘ ہے۔
راگ اور موسیقی سے دلچسپی
اقبال کی میٹرک کی کتابوں میں موسیقی کے بعض سُروںکے بارے میں حوالے ملتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو راگ اور موسیقی سے خاصی دلچسپی تھی۔ ان کی دلچسپی کا اظہار باقیات کے اس شعر سے بھی ہوتا ہے ؎
لوگ کہتے ہیں مجھے راگ کو چھوڑو اقبال
راگ ہے دین مرا ، راگ ہے ایمان میرا
فکری ارتقا کے نمونے
فکری لحاظ سے اقبال نے کن خیالات کو ترک کر دیا؟ اس کا بہترین اظہار اقبال کے باقیات شعری سے ہوتا ہے ۔ وطنیت ،قومیت نیز تصّوف ، وحدت الوجود ، قادیانیت اور دو قومی نظریے کے حوالے سے اقبال کے ان اشعار میں ایسا مواد موجود ہے جس سے تحقیق کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔ مثلاً ان وجوہات کا علم ہوتا ہے جو ایک زمانے میں اقبال اور قائد اعظم میں اختلاف کا موجب تھے ۔
اقبال کا فنی ارتقا
ان اشعار سے نہ صرف اقبال کے ذہنی ارتقا کی کڑیاں مرتب ہو سکتی ہیں بلکہ فنی ارتقا کی پوری کیفیت بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ مثلاً ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو فن کی بلندیوں پر پہنچانے والی اصل چیز ان کی وہ محنت ہے جو وہ اپنے کلام پر مسلسل کرتے رہتے تھے ۔ اقبال کی آفاقیت کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے کلام سے ایسے اشعار نکال دیتے ہیں جن میں شخصی اور مقامی پن زیادہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ نے بیشتر فرمایشی اشعار اپنے کلام میں شامل ہی نہیں کیے اشعار کی تراش خراش اور پھر اس کے انتخاب میں جگر کاوی کے نتیجے میں اقبال کا جو کلام ہمارے سامنے آیا ہے اُس نے جغرافیائی سرحدوں کو پامال کر دیا اور پوری دنیا کے دل کی دھڑکن بن گیا۔
باقیاتِ شعرِ اقبال نہ صرف علامہ کے نظریات کا پس منظر فراہم کرتے ہیں بلکہ عوام کے نظریۂ فن پر بھی کماحقہ روشنی ڈالتے ہیں۔ شاعر اپنے کلام کا بہترین ناقدنہ سہی لیکن اپنے کلام کے فن اور فکری پہلوئوں پر اس کی اچھی خاصی نظر ہوتی ہے ۔ کس شعر کو ترک کرنے یا اس میں اصلاح کرنے کے عملی پہلو کے پیچھے شاعر کا زبر دست تنقیدی شعور کار فرما ہوتا ہے ۔ وہ اپنے کلام کو نظریاتی اور فنی دونوں پہلوئوں سے دیکھتا ہے، پرکھتا ہے۔ شاعر کا شعری ذوق اس مرحلے پر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔چنانچہ رد و قبول کی بھٹی سے اپنے کلام کو گذار کر وہ ہمارے سامنے اپنی تخلیق پیش کرتا ہے۔ جتنا بڑا شاعر ہو گا اتنا ہی اس میں تنقیدی شعور بھی زیادہ ہو گا۔ ترمیم و تنسیخ کے عمل کا آغاز عام طور پر اسی وقت سے شروع ہو جاتا ہے جب کوئی خیال ، جذبہ یا واقعہ شاعر کے ذہن میں ارتعاش پیدا کر دیتا ہے ۔ چنانچہ جو تخلیق اس ارتعاش کے نتیجے میں عالمِ وجود میں آتی ہے وہ ذہن کے پراسرار گوشوں سے گذر کر صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر تمام تخلیقی عمل کو پوری طرح سمجھ لینا ہمارے بس کی بات نہیں ۔ لہٰذا اس پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے ۔ لیکن جب کوئی تخلیق زینتِ قرطاس بنتی ہے اور پھر اس کی نوک پلک درست کی جاتی ہے تو یہ تبدیلیاں اس لمحے میں شاعر کی تمام نفسیاتی کیفیتوں کا مظہر ہوتی ہیں ۔ چنانچہ اِن اصطلاحات اور تبدیلیوں کا شاعر کے عہد اور ماحول کے پس منظر میں تجزیہ کیا جائے تو بعض اوقات اس فنکار کے متعلق حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں ۔ اقبال کے شعری آثار تین طرح کے ہیں:۔
(الف) وہ نظمیں ؍ غزلیں ؍ قطعات و رباعیات جنہیں علامہ نے مختلف وجوہ کی بنا پر ترک کر دیا تھا ۔
(ب) جو نظمیں علامہ نے کلام میں اشاعت کے لیے منتخب کی تھیں ان کے بعض اشعار ترک کر دیے گئے۔
(ج) بعض اشعار میں علامہ نے اصلاحات کی تھیں ۔ ان کی بیاضوں کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مصرعے کو دو ، دو اور بعض اوقات تین یا چار دفعہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ امریہ ہے کہ بعض مصرعوں میں کی جانے والی تمام اصلاحات علامہ کو پسند نہیں آتیں اور وہ ابتدائی مصرعے کو بحال کر دیتے ہیں۔ اس طرح کے متعدد اشعار اور مصرعے اب علامہ کے متداول کلام میں موجود ہیں۔ کلامِ اقبال کے اس حصے کی نشاندہی ہونی چاہیے تاکہ ایسے اشعار کی تفہیم و تشریح میں اس پہلو کو سامنے رکھا جا سکے کہ اقبال فنی یا فکری لحاظ سے ان اشعار سے مطمئن نہیں تھے ۔ عدم اطمینان کا یہ فنی یا نفسیاتی تجزیہ اقبال کے بارے میں ہماری معلومات میں ضرور اضافہ کرے گا۔
اقبال کی اپنے کلام پر اصلاح عام طور پر ان کے شعر کو معیاری بنا دیتی ہے ۷ ۔ اس سے علامہ کے تنقیدی شعور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اصلاح کا یہ عمل بانگِ دراسے ارمغان حجاز تک اسی شد و مد کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ۸ علامہ کے متروکات و اصلاحات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو شعر کے فنی پہلوئوں سے خاصی دلچسپی تھی ۔ وہ اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ فنِ شاعری سے ناواقفیت کا اظہار جس کا ذکر ان کے کئی خطوں میں ہوا ہے، محض انکسار ہے۔ علامہ کے متروکات اور اصلاحات کا مطالعہ ان کے متداول کلام کو سمجھنے میں ہماری بہت معاونت کر سکتا ہے۔