سید فصیح احمد
لائبریرین
کہا جاتا ہے کہیں کسی دیار میں کوئی نخلستان تھا. جہاں ہر نایاب و نفیس نوعِ زندگی ایک بڑے برگد کے سائے تلے نمو پاتی تھی. کبھی وہاں خزاں کا گزر نہ ہوا تھا. وہاں سے گزرے ہر چشم دید مسافر نے ہمیشہ اس جگہ بہار کو رکے دیکھا. پھر کوئی منحوس ساعت، ایک عفریت اس علاقے میں آ نکلی. دیکھنے والے بتاتے ہیں ایک سر سے کئی دھڑ جڑے تھے. وہ عفریت کوشش کے باوجود اس نخلستان کو مٹا نہ سکی. تو جاتے ہوئے وہ کریہہ صورت کچھ ایسا پھونک گئی کہ تب سے آج تک اس نخلستان میں خزاں ٹھہری ہے. بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں اس برگد کی تمام اخضری رگوں سے اب زرد رس ٹپکتا ہے. اس عفریت کی پھونک نے ہر ذی روح کو تو تباہ کر دیا مگر ان سب کی آنکھیں آج بھی نخلستان کی سرحدوں پر منڈلاتی ہیں. کہ شاید کوئی مہرباں آ کے انہیں ان کا وجود لوٹا دے.
آخری تدوین: