فہیم
لائبریرین
کسی کی صدا
رات کے پرکیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آرہی ہے اس طرح جیسے کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی پلکوں کو اکساتی ہوئی
آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خفت کا غبار
بزمِ انجم کی ہر ایک تنویر دھندلی ہوگئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرہ ذرہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دلنشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھوتا سا خیال
یا سحر کے سیمگوں رخسار پر پہلی کرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہوجاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہوہٹوں میں دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر جیسے میدانوں میں آئے
رات کے پرکیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آرہی ہے اس طرح جیسے کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی پلکوں کو اکساتی ہوئی
آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خفت کا غبار
بزمِ انجم کی ہر ایک تنویر دھندلی ہوگئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرہ ذرہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سوئے جوئبار
یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دلنشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھوتا سا خیال
یا سحر کے سیمگوں رخسار پر پہلی کرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے جس طرح بوسوں کے جال
گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہوجاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہوہٹوں میں دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر جیسے میدانوں میں آئے