ملک عدنان احمد
محفلین
بانہوں میں یوں وہ حسن کا پیکر پڑا رہا
صحرا کے بیچ جیسے سمندر پڑا رہا
اسکو چھوا تھا خواب میں پل بھر کو اور پھر
شب بھر مرا وجود معطر پڑا رہا
خوش فہمیوں میں پڑ ہی گیا وہ بھی ایک دن
ہیروں کے درمیان جو کنکر پڑا رہا
مدت ہوئی تھی خود سے ہی مجھ کو ملے ہوئے
کل رات خود میں اپنے ہی در پر پڑا رہا
اے آسمان! کیسے گوارا کہ تشنہ لب
تسکینِ قلبِ ساقئِ کوثر پڑا رہا
منزل کو دھیرے دھیرے وہ کم تر پہنچ گیا
سویا ہوا، وہ تند وہ بہتر، پڑا رہا
احمد سے چھین لی گئی حسرت اڑان کی
کنجِ قفس میں بند وہ شہ پَر پڑا رہا
(ملک عدنان احمد)
صحرا کے بیچ جیسے سمندر پڑا رہا
اسکو چھوا تھا خواب میں پل بھر کو اور پھر
شب بھر مرا وجود معطر پڑا رہا
خوش فہمیوں میں پڑ ہی گیا وہ بھی ایک دن
ہیروں کے درمیان جو کنکر پڑا رہا
مدت ہوئی تھی خود سے ہی مجھ کو ملے ہوئے
کل رات خود میں اپنے ہی در پر پڑا رہا
اے آسمان! کیسے گوارا کہ تشنہ لب
تسکینِ قلبِ ساقئِ کوثر پڑا رہا
منزل کو دھیرے دھیرے وہ کم تر پہنچ گیا
سویا ہوا، وہ تند وہ بہتر، پڑا رہا
احمد سے چھین لی گئی حسرت اڑان کی
کنجِ قفس میں بند وہ شہ پَر پڑا رہا
(ملک عدنان احمد)