بقلم رفی بھائی ۔ عبدالرحمن شداد بھیا کے دوست ۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ:
یہ ستائیس مارچ کی ایک افسردہ شام تھی، جب عکاشہ بھائی نے کال کر کے بتایا کہ عبدالرحمٰن بھائی کے والد صاحب کی کال آئی ہے کہ بھائی پچھلے پانچ دن سے آئی سی یو میں ہیں، تھریڈ لگا دیا ہے، لیکن ان کی درخواست پر نام نہیں بتایا۔ زیادہ تفصیل بتانے کی پوزیشن میں نہ وہ تھے اور نہ میں کچھ مزید پوچھنے کی ہمت کر پا رہا تھا، عبدالرحمٰن بھائی سے چند روز پہلے تک فون پر طویل باتیں ہوئیں جس میں انہوں نے گذشتہ دو سالہ جدوجہد کے متعلق تفصیل سے بتایا تھا، میرے ذہن میں ان کی ایک ایک بات فلم کی طرح چلنے لگی اور بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
عکاشہ بھائی نے ان کے والد محترم کا نمبر بھی بھیج دیا اور بتایا کہ ان سے بات ہوئی تھی تو انھوں نے کافی تسلی دلائی کہ الحمد للہ اب ہوش میں آ چکے ہیں اور انگلی کے اشارے سے دعا کرنے کا کہتے ہیں۔
مگر دل کی بے چینی ایسی تھی کہ جب تک خود انہیں دیکھ نہ لیتا قرار نہیں آ سکتا تھا، اس لئے اگلے روز ان کے والد محترم کو فون کیا حال احوال پوچھا تو انھوں نے وہی صورتِ حال بتائی، اور بتایا کہ وہ جدہ کے الجدعانی ہاسپٹل میں ہیں جو کہ شارع اربعین پر ہے۔ ملاقات کا وقت شام چھ سے سات بجے تک کا ہے۔
شام ساڑھے چار بجے گھر سے نکلا لیکن رستے میں پہلے ایک ٹائر پھٹا پھر سپیئر بھی پھٹ گیا۔ اس دوران ملاقات کا وقت نکل چکا تھا، عکاشہ بھائی کو فون کیا اور بتایا کہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکا۔ ان شاء اللہ کل دوبارہ جاؤں گا۔
اس طرح 29 مارچ بروز جمعہ تقریباً ساڑھے چھے بجے میں ہاسپٹل پہنچا اور ان کے والد صاحب کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ دوسری منزل پر آئی سی یو میں ہیں، وہیں پر وہ آئی سی یو کے گیٹ پر ملیں گے۔ وہاں پہنچ کر انہیں دوبارہ فون کیا تو وہ باہر آئے، میرے ساتھ ہاسپٹل میں محمد اور بنت مکہ بھی گئے تھے۔
آئی سی یو کے گیٹ پر بیٹھے سیکورٹی گارڈ نے محمد کو اندر لے جانے سے منع کر دیا، عبدالرحمٰن بھائی کے والد صاحب نے اصرار کیا کہ وہ بچے کو گود میں اٹھا کر لے جائیں گے۔ لیکن میں نے انہیں کہا کہ کوئی بات نہیں پہلے میں مل لیتا ہوں، یہ بعد میں چلی جائیں گی۔
اندر جانے سے پہلے انہوں نے اندر پردہ کروا دیا تھا، جہاں پر ان کی سسٹر بھائی کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔
میں اندر گیا تو عبدالرحمٰن بھائی کی نظریں دروازے پر لگی ہوئی تھیں، ان کے والد صاحب نے عبدالرحمٰن بھائی سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھ تجھے کون ملنے آیا ہے۔ لیکن میں بیان نہیں کر سکتا کہ میرے جذبات اس وقت کیا تھے۔ میرے سامنے عبدالرحمٰن نہیں تھا، بلکہ ہشام نظر آرہا تھا۔ وہی حالت وہی ماحول، اور عبدالرحمٰن بھائی کی جسمانی حالت بھی ایسی تھی کہ بس ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔ ان کے ماتھے پر ایک ویٹ ٹشو رکھا ہوا تھا جسے لے کر ان کی بہن ان کا چہرہ صاف کر رہی تھیں۔ منہ میں آکسیجن کی نالیاں لگی ہوئی تھی، خوراک کے لئے ایک ایکسٹینشن بھی لگی ہوئی تھی۔ دونوں ہاتھوں اور بازؤں پر انجکیشنز کے نشانات اور ایک ہاتھ پر کینولا لگا ہوا جس میں ڈرپ چل رہی تھی۔ میں ان کا بایاں ہاتھ پکڑ کر کھڑ ہو گیا، بہ مشکل سلام کیا اور پوچھ پایا کہ کیا مجھے پہچانا، تو آنکھوں کے اشارے سے مثبت جواب دیا۔ اور بائیں ہاتھ کی شہاد کی انگلی آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ (دایاں بازو اور ٹانگ میں حرکت نہیںتھی) ان کے ہاتھ کو سہلاتا رہا اور دعائیں پڑھتا رہا۔ ان کے والد محترم کچھ باتیں کر رہے تھے مگر میرا دھیان اس طرف نہیں تھا۔ عبدالرحمٰن بھائی کی پُر سکون نظریں میرے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں مگر میں ان کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔
مجھے رونا نہیں آتا اور آ جائے تو رکتا نہیں، میں وہاں رونا نہیں چاہتا تھا مگر روک بھی نہیں پا رہا تھا۔ ان کے والد محترم نے مجلس کے کچھ اراکین کو اطلاع کرنے اور دعا کی درخواست کرنے کا بھی کہا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ڈاکٹرز کی رپورٹس کا پوچھا حالانکہ دل میں جو ڈر بیٹھ چکا تھا وہ دور نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے والد محترم نے کہا کہ ڈاکٹرز کافی پُرامید ہیں ہم بھی اپنے بیٹے کی تمام خوشیاں پوری کریں گے بس ایک بار یہ گھر آجائے، اور جن حالات کی وجہ سے یہ یہاں پر ہیں وہ ٹھیک ہو جائیں گے میں نے انہیں اس کا تذکرہ کرنے سے منع کیا اور کہا کہ آپ بس دعا کریں۔ والدین کی دعاؤں کا کوئی نعم البدل نہیں۔
پھر میں نے ان سے اجازت چاہی تو عبدالرحمٰن بھائی نے اپنے بازو اور پاؤں کو جنبش دینا شروع کر دی، جیسے مجھے روک رہے ہوں، لیکن ملاقات کا وقت ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے، مجھے باہر جا کر محمد کو بھی پکڑنا تھا تاکہ بنت مکہ بھی ان کی بہن سے ان کا حال احوال پوچھ کر عیادت کر سکیں۔
جتنی دیر وہاں رہا ان کے سر، ماتھے اور ہاتھ کو سہلاتا رہا، نکلتے وقت ان کی پیشانی پر بوسہ دیا تو آنسوؤں پر قابو نہ رہ سکا، لیکن پیچھے دیکھے بغیر جلدی سے باہر نکل آیا۔
باہر نکل کر محمد کو لے کر بیٹھ گیا اور خوب رویا، جب بنت مکہ باہر آئیں تو ان کے ساتھ عبدالرحمٰن بھائی کی سسٹر بھی تھیں، کافی دیر وہ باتیں کرتی رہیں پھر اندر چلی گئیں، میں بنت مکہ کو گاڑی میں بٹھا کر واپس ان کے والد محترم سے ملا اور درخواست کی کہ ہمیں ابنِ عمر بھائی کا نام شائع کرنے کی اجازت دیں، کیونکہ بہت سے اراکین جو دعائیں کر رہے ہیں اگر انہیں ابنِ عمر بھائی کا پتہ چلے تو وہ اور شدت سے دعائیں کریں گے۔ جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
یہ تھی میری ابن عمر بھائی سے آخری ملاقات جسے الفاظ میں ڈھالنا بھی میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں۔ لیکن اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس بھائی کا آخری وقت میں بھی اس کی وحدانیت کا اقرار قبول فرمائے۔ اور جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جئے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=32750