باپو گاندھی جی کا آشرم - اردو ڈائجسٹ

قائد اعظم اور گاندھی اتفاق سے دونوں ہی کا میاب وکیل تھے اور دونوں ہی انگریز آقائوں سے ملک کی نجات کے شدید ترین خواہاں تھے لیکن دونوں ہستیوں میں کردار اورمزاج کے اعتبار سے بہت تفاوت تھا۔​
قائداعظم تحریکِ آزادیٔ ہند کے ساتھ ساتھ تقسیم ِ ہند کے بھی وکیل تھے۔یعنی ایک طرف گاندھی اگر محض ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک چلا رہے تھے تو دوسری طرف قائد اعظم ’’ تقسیم کرو اور ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔قائد اعظم قول وفعل اور کردار کے سچے ، پکے اور کھرے لیڈر تھے جبکہ گاندھی سیاست کا لبادہ اوڑھے تھے۔ قائد اعظم گاندھی جی کی ننگ دھڑنگ رہنے کی ادا سے بیزار جبکہ خود ہر وقت ایک مہذب اور جدید لباس میں جلوہ گر رہتے تھے۔​
گاندھی جی اپنی سیاسی زندگی میں بار بار ڈرامے رچانے کے عادی تھے۔کبھی ہندو مسلم بھائی بھائی کا ڈراما اور کبھی مرن برت کا ڈراما لیکن قائد اعظم اپنے مسلم عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے کسی بھی ڈرامے کے قائل نہیں تھے۔ جو رکھ رکھائو اور قول و قرار ان کا ابتدائی دور میں رہا ، وہی رکھ رکھائو اور قول و قرار ان کا آخری دور میں بھی رہا۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ قائدِ اعظمؒ کا کردار عورتوں کے اسکینڈل سے ہمیشہ مبرا رہا جبکہ بھارتی قائد جواہر لال نہرو کا لیڈی مائو نٹ بیٹن کے ساتھ معاشقہ سب کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور گاندھی جی پر بھی انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں۔​
پاکستان کے معروف ادیب مرحوم اختر حسین رائے پوری کی اہلیہ محترمہ حمیدہ اختر حسین راوی ہیں کہ تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان میں ان کی ملا قاتیں گاندھی اور سروجنی نائیڈو سے بھی ہوتی رہی تھیں۔گاندھی کے ساتھ ایک ایسی ہی ملاقات کے بعد محترمہ نے گاندھی اور ان کے مشہورِزمانہ آشرم (دربار) کا احوال بیان کیا ہے۔اپنی کتاب ’’ہم سفر‘‘ (شوہر کی سوانح حیات ) شائع شدہ مکتبۂ دانیال کراچی میں وہ لکھتی ہیں۔(واضح رہے کہ گاندھی جی کی اردو کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اُنھوں نے خود گاندھی جی کی اپنی زبان میں بیان کیے ہیں جس سے عبارت کا لطف دوچند ہو جاتا ہے۔)​
گاندھی جی کا آشرم
صبح تڑکے اُنھوں نے مجھے اٹھایا کہ جھٹ پٹ منہ ہاتھ دھو کر باہر چلو، بعد میں ناشتا کرنے چلیں گے۔ باہر آکر تماشا دیکھا کہ ہر طرف اِدھر اُدھر لوگ جھاڑو لگا رہے ہیں، کچھ خواتین بھی ۔ پیچھے کی طرف لڑکے لڑکیاں تھیں جو بڑی پھرتی سے جھاڑو لگانے، گوبر اُٹھانے میں مصروف تھیں۔ بتایا یہ لڑکے لڑکیاں یہاں ( گاندھی ) کے آشرم ہی میں رہتے ہیں۔یہ کہہ کر نیچے اتریں، برآمدے کے نیچے رکھی جھاڑو اٹھا کر گز دو گز ادھر ادھر دو چار ہاتھ مارکر ہنستی ہوئی اوپر پھر برآمدے میں آگئیں۔ دور کی طرف اشارہ کیا۔وہ دیکھو، سیٹھ برلا جھاڑو لگا رہے ہیں۔​
’’توبہ توبہ ،یہ سب کیا ڈھونگ ہے؟‘‘میں نے کہا۔ ’’ تم یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ یہ برابری کا درس ہے۔ دیکھو میں تمہیں باپو کے پاس ایک شرط پر لے جائوں گی کہ ہر گز ایسی اوٹ پٹانگ باتیں نہیں کروگی۔ دوسرے یہ کہ ان کو گاندھی جی نہیں بلکہ باپو جی کہو گی‘‘۔’’ بہت بہتر‘‘۔​
ناشتے میں ایک اسٹیل کے گلاس میں دودھ اور ایک پھلکا ملا۔ وہ تو نہانے چلی گئیں۔میں کھڑکی سے لگ کر باہر کا تماشا دیکھنے لگی۔ کچھ لڑکیاں لڑکے بالٹی اور گگریاں لیے پانی بھرنے کنوئیں پر جا رہے تھے، کچھ پانی بھر کر لوٹ رہے تھے۔ کسی نے ایک بالٹی پانی کی ہمارے برآمدے میں بھی بھر کر رکھ دی۔ مسز نائیڈو تیار ہو کر باہر آئیں تو کہا پانی کی بالٹی غسل خانے میں لے جائو اور تیار ہو کر آئو۔ میں اِتنے میں ذرا اخبار پڑھ لوں۔​
میں نکلی تو وہ مجھے لے کر جو بیچ میں ہٹ بنی ہوئی ہے،اس طرف کو چلیں۔اپنا سر پلوّ سے ڈھانک کر کہا۔ ’’تم بھی سر ڈھا نپ لو‘‘۔ باہر برآمدے میں ’اینی بینیسنٹ ‘ ایک انگریز خاتون کھڑی ملیں۔ بے بلاؤز کی ساری کا پلوّ کس کر سرپر سے ہوتا ہوا کمر پر کھونس رکھا تھا۔ ذرا سا پلوّ سر پر سے کھسکا تو نظر آیا کہ سر منڈا ہوا ہے۔ یہ عرصے سے گاندھی جی کی چیلی بنی ہوئی ان کی سیوا اور ٹہل خدمت کے کام انجام دے رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جس میں ایک کٹوری میں کدو کش کی ہوئی گاجر، ایک میں چقندر تھا اور ایک طرف کچھ پتے مولی کے۔ سروجنی نائیڈو نے ان سے اندر جانے کی اجازت لی اور مجھے لے کر اندر آئیں اور جھک کر نمسکار کرکے گاندھی جی کے پائوں ہاتھ لگا کر چھوئے اور انکا آشیرباد لے کر مجھے بھی اشارہ کیا کہ میں بھی ایسا کچھ کروں۔ میں نے تو صرف جھک کر آداب کیا۔مجھے ملایا کہ یہ حمیدہ، اختر حسین رائے پوری کی بیوی ہیں۔ آپ کا شکریہ ادا کرنے یہاں آئی ہیں۔ ’’ بیٹھیے بیٹھیے آپ دونوں۔‘‘ کمرے کے لِپے پُتے فرش پر ایک بڑی سی چٹا ئی بچھی ہوئی تھی، پیچھے گائو تکیہ اور سامنے ایک منّے سے ڈیسک نما نیچی سی میز پر قلم اور کاغذ رکھے تھے۔​
اب میں نے ان کی طرف ہمت کرکے دیکھا۔ موٹے کھدر کی دھوتی اس انداز سے بندھی ہوئی تھی کہ پتلی سوکھی ٹانگیں ران تک ننگی۔ نہ بنیان نہ کرتا۔ ایک ایک پسلی یوں نمایاں کہ بڑی آسانی سے ہڈیاں گن لو۔ لمبا سا جینیئو گلے میں پڑا ہوا۔ ماتھے پر تلک، سر کے بال برائے نام، اُبھرتا ہوا بے حد چوڑا ماتھا، پتلے پتلے ہونٹ ایک دوسرے سے بھنچے ہوئے، ناک موٹی سی اور موٹی موٹی بھنویں، عجیب قسم کی آنکھیں، نہ تو بہت بڑی نہ چھوٹی، مگر ان میں برقی روشنی سی، جیسے مقابل والے کا ایکسرے لے رہی ہوں۔ دھنسے ہوئے کلے، جبڑے کی ہڈیاں اُبھار لیے ہوئے، گندمی رنگ اور سامنے کے ۴ دانت غائب،مٹھی بھر وزن، مگر جانے ان میںکون سی طاقت تھی۔ مجھے یوں لگا کہ اُنھوں نے مجھے اندر تک پڑھ لیا ہے۔ ان کے آگے یا تو انسان کی آنکھیں جھکی کی جھکی ر ہ جائیں یا اگر ان کی طرف دیکھ لے تو نگاہیں ٹکی کی ٹکی رہ جائیں۔​

سروجنی نائیڈو سر ڈھانکے بڑی مؤدب بیٹھی تھیں، نظریںنیچی کیے ہوئے اور میں گاندھی جی کی طرف دیکھے ہی جارہی تھی۔ مسکرا کر بولے’’آپ کو ہم یہ کہے ہے کہ بڑا ۔’کسمت ‘ والی ہے کہ پتی اکتر حسین رائے پوری ملا ہے۔ اگر ایسا لوگ اور بھی ذرا ہو تو کھوب اچھا ہو۔ وہ کابل بہت سا ہے اور بہت سا نڈر، بے باک ہے۔ ناگپور کانفرنس میں زبان کے بارے میں بولا تو ہم سمجھ لیا کہ اس کو ہلا سکتا نہیں۔ ہندوستان کو ایسا ہی لوگ کا ضرورت ہے جو ہندی اردو ایک موافق سا جانے۔ جب یہاں آیا تو اس وکت پاسپورٹ کا بات کچھ کسی سے نہیں بولا۔‘‘ میں نے کہا ’’ وہ بہت خوددار ہیں۔ اپنے لیے کسی سے کچھ نہیں کہتے۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ وائسرائے کو تار بھیجا۔‘‘ ’’نہیں ،شکریہ کا بات نہیںبی بی۔ سوچو اگر آپ بھی ان کے ساتھ جاتا ہے، پڑھائی آدھی نہ ہوجائے۔ ایسا بھی تو آپ کرسکتا ۔ یہاں آشرم میں رہ کر کچھ سیکھے۔ کوئی بڑا آدمی جو ملک کا سیوا کرے، اس کا پتنی میں بھی حوصلہ، ہمت اوردیس کی سیوا دکا سوک اگر ہوگا تو پھر پتی دل لگا کر دیس کی سیوا کرتا ہے۔ بولے آپ کہ اس آشرم میں اگر رہ جائے تو کیسا لگے؟‘‘ ’’ باپو جی مجھے اپنے شوہر سے دُور رہنا ذرا اچھا نہ لگے ا ور پھر یہاں کی بہت سی باتیں پسند نہیں۔‘‘ سروجنی نائیڈو نے گھبرا کر میری طرف دیکھا۔ ’’کون سا بات؟‘‘​
’’جی یہ بات ٹھیک ہے، مگر یہ سب بچے تو نہیں ہیں۔ بڑے لوگ تو عقل سمجھ والے ہوتے ہیں۔ ان کو توآپ کی بات فوراً مان لینا چاہیے۔ ‘‘ اینی بینسینٹ نے آکر کہا ’’ فلاں صاحب کی ملاقات کا وقت ہو گیا‘‘ تو گاندھی جی نے کہا ’’کہہ دیں ابھی ان کے پاس ملاقات کا وکت نہیں۔‘‘ سروجنی نائیڈو تو اٹھ کر کھڑی ہوگئیں۔ میں نے اٹھنا چاہا تو حکماً کہا۔’’ ابھی آپ بیٹھیے۔‘‘ میں پھر بیٹھ گئی ۔ آپ بولے ’’ جب ہم سارا ہندو ستانی لوگ ایکم ہی دھرتی ماتا کا رہنے والا ہے، پھر ہندو اور مسلمان الگ الگ کیسا ہو سکتاہے۔ مل جل کر کیوں نہیں رہنے سکتا؟ ملک کی آزادی کے لیے ایک موافق کام کیوں نہیں کرنے سکتا؟‘‘​
’’ میں خود آپ سے یہ بات پوچھنے کو تھی کہ اگر آپ یہ بات دل سے چا ہتے ہیں تو اگر ایک مسلمان کسی ہندو لڑکی سے شادی کرلے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے؟ آپ کی نظر میں جب ہندو اور مسلمان ایک ہے تو آپ کو سب سے بڑھ کر اعتراض کیوں ہو؟ بیچاری لکشمی پنڈت نے جب سید حسین صاحب سے شادی کرلی توآپ ہی نے بہانے سے سید صاحب کو ولایت بھیج کر لکشمی جی کو کئی ماہ نظر بند رکھا، جب تک کہ ان کے پھیرے نہ ڈلوا لیے۔ میں ٹھیک بات کہہ رہی ہوں نا؟ اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟‘ ( واضح رہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے مذکورہ مسلمان سید حسین سے پسند کی شادی کی تھی جسے گاندھی جی نے بعد میں زبردستی ختم کرایا تھا بلکہ تاریخی حقیقت تویہ ہے کہ پورا نہرو خاندان ہی، انگریزاور مسلمان مردو ںاور عورتوں کے ساتھ رومانی پینگوں میں مبتلارہا کرتا تھا۔ پھر​
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جواہر لال نہرو پر موہن چند گاندھی جی کا بہت گہرا اثر تھا) ۔ ذراعینک کو اور نیچا ناک پر کرکے ذرا تھم کر بولے ۔ ’’بات یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو بہن بھائی تو پھر بہن بھائی کی شادی کیسے ہونا؟‘‘ اس جواب پر مجھے ہنسی تو بڑے زور سے آئی۔ مشکل سے ضبط کر کے کہا’’ ہندو بھی تو آپس میں بہن بھائی ہوتے ہیں ۔پھر تو کوئی شادی مت ہو نے دیں۔ کتنی اچھی طرح بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘ یہ سن کر وہ ہنسے تو سامنے کے ۲ دانت نمایاں ہو گئے۔مجھے کھڑکی کا خیال آیا۔ اب اُنھوں نے بات کا رُخ بڑی ہوشیاری سے یوں موڑا ’’آپ سامنے وہ بکسے کو دیکھتا ہے، اس پر کیا لکھا ہے؟‘‘ ہندی میں’ کانگریس فنڈ ‘ لکھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہندی شادی سے پہلے شدبد تک جان گئی تھی۔ میرے بتانے پر کہ فنڈ لکھا ہوا ہے، خوش ہوکر بولے ’’خوب خوب، آپ ہندی پڑھ لیتا ہے۔ یہاں جو بھی عورت آتی ہے وہ اپنا زیور اتار کر اس میں ڈال دیتی ہے۔ مرد لوگ جیب کا روپیہ ڈال دیتا ہے۔ تب کانگریس کا کام چلتا ہے۔ آب ۱۲ سونے کا چوڑیاں پہنے ہیں۔ ان کو ڈبے میں ڈال دیں۔جس ملک میں آدمی لوگ کے پاس بدن ڈھانپنے کو کپڑا نہ ہو، پیٹ بھرنے کو کھانا نہ مل سکے، وہاں پر سونا پہننا شرم کی بات ہے نا؟‘‘​
’’بات توآپ ٹھیک فرمارہے ہیں مگریہ چوڑیاں میری اماں نے مجھے تحفے میں دی تھیں اور میرے ہاتھوں میں پہناتے وقت یہ کہہ کر دی تھیں ، خدا تمھارے سہاگ کو ہمیشہ قائم رکھے۔ ایک تو یہ ماں کا تحفہ اور سب سے بڑی دعا، جو کسی بیٹی کے لیے ہو سکتی ہے وہ ان چوڑیوں کے ساتھ شامل ہے۔ پھر آپ ہی بتائیں کہ کیا میں ایسا تحفہ اُتار سکتی ہوں؟ ہاں جب ان شاء اﷲ اختر کی کمائی والی چوڑیاں پہن کر آپ کے درشن کرنے آئو ں گی تو اندر قدم رکھتے ہی پہلا کام یہ کروںگی کہ ان کو پہلے فنڈ کے ڈبے میں ڈال دوںگی۔ ‘‘​
’’آپ تو ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتا۔ اچھا ایسا ہونا چاہیے کہ جانے سے پہلے سروجنی جی کو یہ بتاکر جانا کہ آشرم میں رہے گا اور مولانا عبدالحق صاحب کو میرا سلام دینا۔ وہ تو ہم سے بہت بگڑ گیا ہے۔ اردو اور ہندی دونوں زبان ان کا بھی ہمارا بھی۔ پھروہ بس اردو اردو کیوں کہتا ہیں؟‘‘​
اِتنے میں’ اینی بیسینٹ‘ ایک بکری کو رسی کے ٹکڑے سے پکڑے ہوئے چٹائی پر آئیں تو میں اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ وہ بڑی پھرتی سے بکری کے تھنوں کو اس طرح دبارہی تھیں کہ گاندھی جی کے کھلے ہوئے منہ میں دودھ کی دھاریں سیدھی جاتیں اور وہ غٹ غٹ کرکے پی رہے ہیں۔ جھک کر آداب کیا اور وہاں سے نکل کر برآمدے میں آئی تو دیکھا کہ سروجنی جی کھڑی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ بڑے روکھے انداز سے بولیں ” حمیدہ تم بھی خوب ہو۔ بھلا کبھی باپو جی سے کسی نے ایسی باتیں کی ہوں گی ؟” ” تو وہ مجھ سے آخر یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ میں آشرم میں رہ جائوں اور اختر چلے جائیں ولایت؟” “یہ تو میں نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اگر وہ آشرم میں رہنے کو خود کہیں گے تو شاید تم مان لوگی تاکہ اختر کی پڑھائی مکمل ہوسکے۔ یوں میں مدراس میں جو ’’بِرلا ٹرسٹ ‘‘ ہے، اسکالر شپ دلانے کی پوری کوشش کروں گی۔‘‘​
’’ اگر مل جائے تو کیا ہی کہنے ۔ اور نہ ملے تو آپ ذرا فکر نہ کریں۔ اللہ اختر کے قلم کو سلامت رکھے ۔ہم دونوں آسانی سے گزر کرلیں گے۔ اور پھر میری پاکٹ منی بھی تو ہے۔‘‘ وہ میرے چہرے کو غور سے دیکھ کر چپ ہوگئیں۔۹ بجے رات کو حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئی ۔اس خیال سے بے حد مگن کہ اسٹیشن پر مولوی صاحب اور اختر کھڑے ملیں گے۔ گاڑی رکی تو دیکھا کہ صرف مولوی (عبدالحق۔سید)صاحب ہیں۔ جب میں نے اِنھیں گاندھی جی سے ملاقات کی ساری باتیں بتائیں۔ خوش ہو کر بولے ‘‘ تم نے اچھا کیا سید حسین اور لکشمی پنڈت والی بات کا ذکر کیا۔ دیکھو بڈھا کیسا چالاک ہے، بالکل لومڑی جیسا۔ بکری کے تھن سے تازہ دودھ پینے کے طریقے کو سن کر کہا میں تمھاری جگہ ہوتا تو اپنا منہ بھی کھول کر بیٹھ جاتا اور یوں شاید اپنے حصے میں بھی کچھ آجاتا۔​
باپو گاندھی جی کے کردار کی یہ نقشہ گری ایک ایسی خاتون کے قلم سے ہے، جن کے شوہر اختر حسین رائے پوری کوئی بہت زیادہ مذہبی نہیں تھے کہ ہم کہہ سکیںکہ خاتون نے مذہبی جوش میں ان کے خلاف باتیں لکھ دی ہیں۔ بلکہ در حقیقت گاندھی جی کے ساتھ ان کی یہ ایک دوبدو ملاقات تھی اور اُنھوں نے گاندھی جی کو جیسا دیکھا ویسا ہی بیان کیا۔چنانچہ ان کے اس بیانیے کا پسِ پردہ مطلب یہی نکلتاہے کہ گاندھی اپنے طرزِ عمل سے قوم کو بیوقوف بنارہے تھے۔ جس آشرم میں بھلا لا تعداد نوجوان لڑکیاں اور عورتیں اَن گنت مردوں کے ساتھ گھر بار چھوڑ کردن رات گاندھی جی کی خدمت کے لیے رہتی ہوں، وہاں بہت سے ’’ غیر معمولی واقعات ‘‘ کے ہوجانے کا تصور کوئی بھی فرد کرسکتا ہے۔​
گاندھی جی کی یہ عجیب و غریب تصویر آپ نے ملاحظہ کی۔ اس کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی کردار کچھ ایسا ہی تھا؟ کیا ہندوستان میں وہ بھی اس قسم کے کسی آشرم کے بانی تھے؟ کیا ان کے ساتھ بھی کبھی کسی عورت کا کوئی اسکینڈل سامنے آیا ہے؟​
محمد علی جناح ایک ایسے صاف ستھرے اور شریف النفس شخص تھے۔ جو نہ تو کبھی ننگ دھڑنگ رہے اور نہ اُنھوں نے کبھی کوئی معمولی سا بھی غیر مہذبانہ لباس پہنا۔ ایک طرف اگر وہ لباس کے معاملے میں اُجلے تھے تو دوسری طرف دل و زبان کے معاملے میں بھی بالکل اُجلے تھے۔ تو پھر کیسے کوئی مقابلہ کر سکتا ہے پاکستان کے قائد اور بھارت کے قائد باپو موہن داس کرم چند گاندھی کا ؟ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ گاندھی کو دنیا بھر میں مشہور کرانے، قابل قبول بنوانے میں ان کے ڈرامائی اعلانات اور کاموں کا خوب دخل ہے۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 

الف عین

لائبریرین
گاندھی جی کے اردو خطوط میں نے دیکھے ہیں، کافی شستہ اردو لکھتے تھے۔ جس طرح کی ٹوٹی پھوٹی اردو حمیدہ اختر (اگرچہ مجھے شکیلہ اختر نام یاد آ رہا ہے!!!) نے ان سے منسوب کی ہے، ویسی اردو کوئی گجراتی نہیں بولتا، محض بنگالی بول سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
’’ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ گاندھی جی شستہ اردو تو لکھتے، بولتے اور پڑھتے تھے ہی، عربی بھی وہ جانتے تھے اور فارسی کا بھی انہیں علم تھا کیونکہ اکثر سیاسی محفلوں میں وہ فارسی اشعار و کہاوتوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اردو کلچر یا اسلامی اقدار سے قربت مولانا آزاد سے قربت کا نتیجہ تھی۔ کچھ لوگوں کے نزدیک گاندھی جی سیاستدان ہوں گے۔ کچھ لوگوں کے لئے وہ فلسفی ہوں گے۔ کچھ لوگوں کے لئے وہ آزادی ہند جانثار سپاہی ہوں گے اور کچھ لوگوں کے لئے وہ محض ایک اچھے انسان ہوں گے۔ سیاست میں رہتے ہوئے انسان کا اچھا انسان بنے رہنا کچھ دشوار سا عمل ہے۔ مگر گاندھی جی کی یہ خوبی تھی کہ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک اعلی انسان تھے۔
بقول مولانا آزاد اچھا انسان ہونا ایک ایسی عظمت ہے جو بڑی عام سی دکھائی دیتی ہے مگر کم ہی خوش نصیبوں کے حصے میں یہ خصلت آتی ہے۔ واقعی گاندھی جی بہت اچھے انسان تھے۔
ایک مرتبہ جب بنگال نواکھالی علاقے میں خطرناک قسم کے ہندو مسلم کش فسادات چل رہے تھے تو گاندھی جی گھر گھر جاکر خیر سگالی کا پیغام دے رہے تھے۔ یہ واقعہ راقم کے والد نورالدین احمد مرحوم کے پاس کلکتہ میں مولانا کے غیر مطبوعہ تحریری خزانہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب بڑالال بازار کے ایک گھر کے زینہ سے گاندھی جی اترے تبھی انہیں ایک جوشیلے بنگالی مسلمان نے پکڑلیا اور گردن گرفت میں لے کر گلا دبانا شروع کردیا۔ ان دنوں سکیورٹی گارڈ نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس سے قبل کہ مولانا آزاد جو کہ اس وقت ان کے ساتھ تھے اور دیگر اکابرین جیسے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا حفظ الرحمن وغیرہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ کوشش کرتے کہ مولانا کو چھڑائیں، وہ شخص بولا۔ ''کوئی آگے نہیں آئے گا۔ اس کافر کی کیسے ہمت ہوئی کہ یہ یہاں آگیا!''
یہ کہکر اس نے گاندھی جی کو دھکا دیا، وہ دھان پان توتھے ہی، گرگئے۔ مگر گرتے ہوئے انہوں نے جب سورۃ فاتحہ پڑھی تو سب دنگ رہ گئے۔ یہ دیکھ وہ بنگالی مسلمان بھی حیران رہ گیا اور دشمنی تھوک کرتاحیات ان کا چیلا بن گیا۔ اس کا نام عبدالرحمن منڈل۔‘‘
حوالہ
 

الف عین

لائبریرین
گاندھی جی کی تقریروں کے آڈیو کلپس آسانی سے نیٹ پر مل جاتے ہیں جن میں ان کی گفتگو کی ہندی یا اردو سنی جا سکتی ہے مثلاً یہاں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گاندھی کو خفیہ مسلمان سمجھا جائے۔
کہیں پڑھا تھا کہ سیاسی افکار اور طرزحکومت کے سلسلے میں قدیم ہندو رہنماؤں کے مقابلے میں خلافت راشدہ کی مثالیں دیا کرتے تھے۔
اس بنیاد پر کہ یہ تاریخی طور پر مسلّم اور محکم ہیں۔اور یہ کہ گاندھی جی از حد سادہ انسان تھے۔
 
Top