انتہا
محفلین
با وصف ضبط آنکھ سے آنسو نکل گئے
یہ آفتاب چڑھنے نہ پائے کہ ڈھل گئے
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں
اب ہم حدودِ سوز و زیاں سے نکل گئے
اب اعتبارِ غم ہے نہ احساسِ آرزو
شاید تری نگاہ کے تیور بدل گئے
جھک جھک کے اس ادا سے اٹھی آج وہ نظر
میری جبینِ شوق پہ سجدے مچل گئے
جب عرضِ غم کی کوئی بھی صورت نہ بن سکی
ہم ان کی بزمِ ناز میں لے کر غزل گئے
کیفی غمِ حیات سے روشن ہے زندگی
گوہر وہی بنے ہیں جو طوفاں میں پل گئے
زکی کیفی
یہ آفتاب چڑھنے نہ پائے کہ ڈھل گئے
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں
اب ہم حدودِ سوز و زیاں سے نکل گئے
اب اعتبارِ غم ہے نہ احساسِ آرزو
شاید تری نگاہ کے تیور بدل گئے
جھک جھک کے اس ادا سے اٹھی آج وہ نظر
میری جبینِ شوق پہ سجدے مچل گئے
جب عرضِ غم کی کوئی بھی صورت نہ بن سکی
ہم ان کی بزمِ ناز میں لے کر غزل گئے
کیفی غمِ حیات سے روشن ہے زندگی
گوہر وہی بنے ہیں جو طوفاں میں پل گئے
زکی کیفی