نایاب
لائبریرین
بجلی کا بحران کیا ہم نے خود بنایا ہے؟
اعجاز مہر
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وسطی شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف پرتشدد مظاہرے وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد ختم ہوگئے ہیں۔
مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے کھل کر مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر پرتشدد مظاہرے کرا رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو اکسا رہے ہیں۔ انہوں نے میاں شہباز شریف کا نام لے کر ان پر الزام لگایا کہ وہ مظاہرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں
مسلم لیگ (ن) نے ان کے الزامات کی تردید کی اور وفاقی حکومت پر ناکامی کے الزامات لگائے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل کئی دہائیاں پرانا ہے اور دونوں بجلی پر سیاست کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت پینسٹھ فیصد تیل سے یعنی تھرمل بجلی پیدا ہوتی ہے ، تینتیس فیصد ہائیڈل اور دو فیصد جوہری بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جتنی ہائیڈل بجلی بنانے کی گنجائش ہے اس وقت اس کا بیس فیصد بمشکل ہم حاصل کر رہے ہیں۔
مرحومہ بینظیر بھٹو نے انیس سو چورانوے میں ’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘ مہم چلائی اور پاکستان میں کوئلے سے بجلی بنانے کے لیے سنگاپور کے کاروباری شخصیت گورڈن وو کو ٹھٹہ ضلع میں چھوٹی بندرگاہ بنانے، تھر کا کوئلہ نکالنے کے لیے تھرپارکر تک ریلوے لائن بچھانے اور پانچ ہزار میگا واٹ کا بجلی گھر لگانے کا معاہدہ کیا۔
اُس وقت حکومت پریشان تھی کہ سنہ دو ہزار میں جب یہ پانچ ہزار میگا واٹ کوئلے اور دیگر نجی بجلی گھروں سے اتنی مقدار میں بجلی پیدا ہوگی تو وہ پاکستان کی ضرورت سے تین ہزار میگا واٹ فالتو ہوگی۔ ایسے میں انہوں نے بھارت کو دو ہزار میگا واٹ بجلی بیچنے کے لیے یاداشت نامے پر دستخط کیے۔
لیکن پانچ نومبر سنہ انیس سو چھیانوے کو بینظیر کی حکومت برطرف ہوئی تو سنہ انیس سو ستانوے میں مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت سے حکومت میں آئی۔ انہوں نے کئی نجی بجلی گھروں سے معاہدے منسوخ کیے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کمیشن کی خاطر ان سے مہنگے داموں بجلی خریدنے کے معاہدے کیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی تھر کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بھی ختم کر دیا گیا۔ گورڈن وو نے عدالت سے رجوع کیا اور ان سے میاں نواز شریف کی حکومت نے ’آؤٹ آف کورٹ ڈیل‘ کی اور دو کروڑ ڈالر کے قریب انہیں جرمانہ ادا کرکے بھگا دیا گیا۔ سندھ کے قومپ رست کئی بار تقاریر میں یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف نے تھر کوئلہ منصوبہ اس لیے ختم کیا تھا کہ پھر کالا باغ ڈیم نہیں بن پائے گا۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ نجی بجلی گھر ہوں یا کرائے کے بجلی گھر، موٹر وے ہو یا پیلی ٹیکسی سکیم ہر وقت کے حکمرانوں نے عوامی فلاح کے منصوبے اپنی جیب گرم کرنے کی خاطر بنائے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کیچڑ اچھالتے ہیں اور آخر میں مصیبت عام آدمی کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق آج بھی جو بجلی گھر لگے ہوئے ہیں ان کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بیس ہزار چار سو پندرہ میگا واٹ ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور کچھ آلات کی خرابی کی وجہ سے وہ کم ہوکر سولہ ہزار چار سو ستاون میگا واٹ ہوچکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی ضرورت اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ میگا واٹ ہے جبکہ پیداوار گیارہ ہزار دو سو میگا واٹ ہے۔
پچھلے ماہ جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق باسٹھ فیصد بجلی پنجاب ، سندھ بیس فیصد، خیبر پختونخوا گیارہ فیصد اور بلوچستان ساڑھے پانچ فیصد استعمال کرتا ہے۔ سب سے زیادہ استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں جو کہ چھتیس فیصد ہے، چھ فیصد تجارتی، اکیس فیصد صنعتی، نو فیصد زرعی، پانچ فیصد حکومتی اور باقی دیگر صارفین استعمال کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت کہتی ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں انہوں نے گیارہ سو ارب روپے بجلی کے شعبے کو سبسڈی (رعایت) دی ہے جوکہ کل ملکی پیداوار یعنی ’جی ڈی پی‘ کا ڈھائی فیصد بنتا ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یہ رقم اگر ہائیڈل یا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر لگائی جاتی تو آج پاکستان میں بجلی کی قلت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں پچاس ہزار سے زائد پانی اور اتنی ہی مقدار میں کوئلے سے بجلی بنانے کی گنجائش ہے لیکن پینسٹھ برسوں میں حکمرانوں کی ترجیح مہنگی ترین تھرمل بجلی پیدا کرنا کیوں بنائی؟پاکستان میں اس وقت پینسٹھ فیصد تیل سے یعنی تھرمل بجلی پیدا ہوتی ہے ، تینتیس فیصد ہائیڈل اور دو فیصد جوہری بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جتنی ہائیڈل بجلی بنانے کی گنجائش ہے اس وقت اس کا بیس فیصد بمشکل ہم حاصل کر رہے ہیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق توانائی کی قلت کی وجہ سے تین سو اسی ارب روپے سالانہ معیشت کو نقصان ہو رہا ہے جوکہ جی ڈی پی کا دو فیصد بنتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیس فیصد بجلی چوری/ لائن لاسز ہیں لیکن ماہرین کے مطابق یہ مقدار اصل میں زیادہ ہے۔ لیکن اگر بجلی کی چوری کو ہی روکا جائے تو بھی اسی فیصد مسئلہ آج حل ہو سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاسی بنیاد پر تقرریاں، تبادلے اور ترقیاں نہ کی جائیں اور میرٹ کی بنیاد پر یہ کام ہو اور حکومت انہیں ’ٹارگٹ‘ دے تو بھی پاکستان میں توانائی کے بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
اعجاز مہر
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وسطی شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف پرتشدد مظاہرے وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد ختم ہوگئے ہیں۔
مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے کھل کر مسلم لیگ (ن) پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر پرتشدد مظاہرے کرا رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے خلاف عوام کو اکسا رہے ہیں۔ انہوں نے میاں شہباز شریف کا نام لے کر ان پر الزام لگایا کہ وہ مظاہرین کی پشت پناہی کر رہے ہیں
مسلم لیگ (ن) نے ان کے الزامات کی تردید کی اور وفاقی حکومت پر ناکامی کے الزامات لگائے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل کئی دہائیاں پرانا ہے اور دونوں بجلی پر سیاست کرتے رہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت پینسٹھ فیصد تیل سے یعنی تھرمل بجلی پیدا ہوتی ہے ، تینتیس فیصد ہائیڈل اور دو فیصد جوہری بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جتنی ہائیڈل بجلی بنانے کی گنجائش ہے اس وقت اس کا بیس فیصد بمشکل ہم حاصل کر رہے ہیں۔
مرحومہ بینظیر بھٹو نے انیس سو چورانوے میں ’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘ مہم چلائی اور پاکستان میں کوئلے سے بجلی بنانے کے لیے سنگاپور کے کاروباری شخصیت گورڈن وو کو ٹھٹہ ضلع میں چھوٹی بندرگاہ بنانے، تھر کا کوئلہ نکالنے کے لیے تھرپارکر تک ریلوے لائن بچھانے اور پانچ ہزار میگا واٹ کا بجلی گھر لگانے کا معاہدہ کیا۔
اُس وقت حکومت پریشان تھی کہ سنہ دو ہزار میں جب یہ پانچ ہزار میگا واٹ کوئلے اور دیگر نجی بجلی گھروں سے اتنی مقدار میں بجلی پیدا ہوگی تو وہ پاکستان کی ضرورت سے تین ہزار میگا واٹ فالتو ہوگی۔ ایسے میں انہوں نے بھارت کو دو ہزار میگا واٹ بجلی بیچنے کے لیے یاداشت نامے پر دستخط کیے۔
لیکن پانچ نومبر سنہ انیس سو چھیانوے کو بینظیر کی حکومت برطرف ہوئی تو سنہ انیس سو ستانوے میں مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت سے حکومت میں آئی۔ انہوں نے کئی نجی بجلی گھروں سے معاہدے منسوخ کیے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کمیشن کی خاطر ان سے مہنگے داموں بجلی خریدنے کے معاہدے کیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی تھر کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بھی ختم کر دیا گیا۔ گورڈن وو نے عدالت سے رجوع کیا اور ان سے میاں نواز شریف کی حکومت نے ’آؤٹ آف کورٹ ڈیل‘ کی اور دو کروڑ ڈالر کے قریب انہیں جرمانہ ادا کرکے بھگا دیا گیا۔ سندھ کے قومپ رست کئی بار تقاریر میں یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف نے تھر کوئلہ منصوبہ اس لیے ختم کیا تھا کہ پھر کالا باغ ڈیم نہیں بن پائے گا۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ نجی بجلی گھر ہوں یا کرائے کے بجلی گھر، موٹر وے ہو یا پیلی ٹیکسی سکیم ہر وقت کے حکمرانوں نے عوامی فلاح کے منصوبے اپنی جیب گرم کرنے کی خاطر بنائے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کیچڑ اچھالتے ہیں اور آخر میں مصیبت عام آدمی کو ہی جھیلنی پڑتی ہے۔
پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق آج بھی جو بجلی گھر لگے ہوئے ہیں ان کی بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بیس ہزار چار سو پندرہ میگا واٹ ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اور کچھ آلات کی خرابی کی وجہ سے وہ کم ہوکر سولہ ہزار چار سو ستاون میگا واٹ ہوچکی ہے۔ اس وقت پاکستان میں بجلی کی ضرورت اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ میگا واٹ ہے جبکہ پیداوار گیارہ ہزار دو سو میگا واٹ ہے۔
پچھلے ماہ جاری کردہ اقتصادی سروے کے مطابق باسٹھ فیصد بجلی پنجاب ، سندھ بیس فیصد، خیبر پختونخوا گیارہ فیصد اور بلوچستان ساڑھے پانچ فیصد استعمال کرتا ہے۔ سب سے زیادہ استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں جو کہ چھتیس فیصد ہے، چھ فیصد تجارتی، اکیس فیصد صنعتی، نو فیصد زرعی، پانچ فیصد حکومتی اور باقی دیگر صارفین استعمال کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت کہتی ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں انہوں نے گیارہ سو ارب روپے بجلی کے شعبے کو سبسڈی (رعایت) دی ہے جوکہ کل ملکی پیداوار یعنی ’جی ڈی پی‘ کا ڈھائی فیصد بنتا ہے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یہ رقم اگر ہائیڈل یا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر لگائی جاتی تو آج پاکستان میں بجلی کی قلت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں پچاس ہزار سے زائد پانی اور اتنی ہی مقدار میں کوئلے سے بجلی بنانے کی گنجائش ہے لیکن پینسٹھ برسوں میں حکمرانوں کی ترجیح مہنگی ترین تھرمل بجلی پیدا کرنا کیوں بنائی؟پاکستان میں اس وقت پینسٹھ فیصد تیل سے یعنی تھرمل بجلی پیدا ہوتی ہے ، تینتیس فیصد ہائیڈل اور دو فیصد جوہری بجلی پیدا ہوتی ہے۔ جتنی ہائیڈل بجلی بنانے کی گنجائش ہے اس وقت اس کا بیس فیصد بمشکل ہم حاصل کر رہے ہیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق توانائی کی قلت کی وجہ سے تین سو اسی ارب روپے سالانہ معیشت کو نقصان ہو رہا ہے جوکہ جی ڈی پی کا دو فیصد بنتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیس فیصد بجلی چوری/ لائن لاسز ہیں لیکن ماہرین کے مطابق یہ مقدار اصل میں زیادہ ہے۔ لیکن اگر بجلی کی چوری کو ہی روکا جائے تو بھی اسی فیصد مسئلہ آج حل ہو سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سیاسی بنیاد پر تقرریاں، تبادلے اور ترقیاں نہ کی جائیں اور میرٹ کی بنیاد پر یہ کام ہو اور حکومت انہیں ’ٹارگٹ‘ دے تو بھی پاکستان میں توانائی کے بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔