بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا
وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا

خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے
جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا

اُس نے بھی چھوڑدیا مجھ کو زمانے کیلئے
جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا

کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو
پھر کسی اور کی جھولی میں یہ دَھن چھوڑ گیا

دے رہا ہے مجھے پسپائی کے طعنے وہ بھی
میری رفتار میں جو اپنی تھکن چھوڑ گیا

بھول جانے کی قسم لے گیا وہ رشکِ گلاب
یاد رکھنے کو مہک ، رنگ، چبھن چھوڑ گیا

دستکِ دستِ طلب بس میں نہیں تھی اس کے
سو میں دہلیز پہ خود اپنا بدن چھوڑ گیا

نہ کوئی آگ لگائی ، نہ ڈھلا پانی میں
کس کا آنسو تھا ، بس آنکھوں میں جلن چھوڑ گیا

تھک کے بیٹھا تھا گھڑی بھر کومرے پاس کوئی
اورمرے کاندھے پہ برسوں کی تھکن چھوڑ گیا

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۷

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی محمد تابش صدیقی کاشف اختر
 
Top