محمد امین
لائبریرین
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آیا بحرِ متدارک کو مثمن مقطوع استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ میں نے اس بحر میں ایک غزل لکھنے کی کوشش کی ہے، عروض سے میری واقفیت محض چند ارکان کے ناموں تک ہے، کبھی میں نے بحر کو مد نظر رکھ کر طبع آزمائی نہیں کی، ہمیشہ بے بحر و وزن ہی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔۔ جس غزل کی میں بات کر رہا ہوں وہ نظر کرتا ہوں۔۔:
وزن یہ رکھنے کی کوشش کی ہے میں نے:
فعلن فعلن فعلن فعلن
رہتا ہوں اب بوجھل بوجھل،
کاندھوں کاندھوں گویا دلدل // یہاں ایک محترم دوست نے گویا کی جگہ تک ہے لکھنے کا مشورہ دیا
نظروں سے ہے اوجھل اوجھل، // مطلعِ ثانی۔۔
میری آنکھوں کا وہ کاجل،
زوروں پر رہتا ہے اکثر،
غم کا دریا، بہتا کاجل،
برسا تھا وہ عرصہ پہلے،
اب تک من ہے سارا جل تھل،
افسانے کا آخر طے، //یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب انجام معلوم ہے تو دل میں کھد بد کیسی؟
دل میں ہے پھر کیسی ہلچل؟
گھر سے نکلے ایسے میں جب،
گھِر کر آئے کالے بادل۔
وزن یہ رکھنے کی کوشش کی ہے میں نے:
فعلن فعلن فعلن فعلن
رہتا ہوں اب بوجھل بوجھل،
کاندھوں کاندھوں گویا دلدل // یہاں ایک محترم دوست نے گویا کی جگہ تک ہے لکھنے کا مشورہ دیا
نظروں سے ہے اوجھل اوجھل، // مطلعِ ثانی۔۔
میری آنکھوں کا وہ کاجل،
زوروں پر رہتا ہے اکثر،
غم کا دریا، بہتا کاجل،
برسا تھا وہ عرصہ پہلے،
اب تک من ہے سارا جل تھل،
افسانے کا آخر طے، //یہاں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب انجام معلوم ہے تو دل میں کھد بد کیسی؟
دل میں ہے پھر کیسی ہلچل؟
گھر سے نکلے ایسے میں جب،
گھِر کر آئے کالے بادل۔