اس کو بحرِ وافِر اس لیئے کہتے ہیں کہ اس میں عربوں نے بہت وافِر مقدار میں شعر کہے ہیں۔
یہ ایک مفرد بحر ہے یعنی اس میں ایک ہی رکن کی تکرار ہے، اس بحر (بحر وافر مسدس سالم) کے افاعیل ہیں:
مُفاعِلَتُن مُفاعِلَتُن مُفاعِلَتُن مُفاعِلَتُن
اشاری نظام میں
21121 21121 21121 21121
یہ بھی بالکل صحیح ہے کہ یہ خاص عربی کی بحر ہے اور فارسی اور اردو میں مستعمل نہیں ہے۔ لیکن فارسی اور اردو میں مستعمل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی مشکل یا سنگلاخ بحر ہے بلکہ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس بحر کا آہنگ فارسی اور اردو کے ساتھ لگا نہیں کھاتا۔
اس بحر کا جو رکن ہے مُفاعِلَتُن، اس کے وزن پر فارسی اور اردو میں ایک بھی مفرد لفظ نہیں ہے لیکن عربی میں بے شمار ہیں جیسے
مقابلۃُُ (تنوین کے ساتھ یعنی مقابلَ تن)
مشاعرۃُُ
مراقبۃُُ
وغیرہ وغیرہ
لیکن فارسی، اردو میں مرکب الفاظ اور ترکیبوں سے وزن پورا کیا جاتا ہے، جیسے
رسولِ خدا
جمالِ خدا
مٹھاس بھرا
چٹور پنا
وغیرہ وغیرہ
نمونے کے طور پر فارسی، اردو میں اشعار بھی ملتے ہیں، بلکہ مولوی نجم الغنی صاحبِ بحر الفصاحت کے الفاظ میں "بعض شعرائے فارس نے بہ تکلف اس میں شعر کہے ہیں۔"
ڈرا کے کہا، بھلا بے بھلا، خفا جو ذرا، ہوا وہ صنم
مرا بھی ذرا، گلہ نہ رہا، ہنسا جو گیا، مجھے یہ ستم
(بحوالہ بحر الفصاحت)
چہ شد صَنَما، کہ سوئے کسے، بہ چشمِ وفا، نمی نِگَری
ز رسمِ جفا، نمی گُزَری، طریقِ وفا، نمی سَپَری
(بحوالہ چراغِ سخن از مرزا یاس یگانہ چنگیزی)
امام احمد رضا کی نعت بہت خوبصورت ہے، جب عروض کی سمجھ نہیں تھی تو پھر بھی مجھے یہ نعت بہت دلکش لگتی تھی اور میں اس کے شعری حسن میں کھویا رہتا تھا۔
اور شکریہ نظامی صاحب اس پوسٹ کیلیئے!