بحر ہزج میں مری پہلی کوشش -- کاشف

جناب
الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
محمد اسامہ سَرسَری صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
محمد وارث صاحب
بحر ہزج
میں مری پہلی کوشش ... اصلاح اور تنقید کے لئے
آپ سب سے رہنمائی اور مشوروں کی درخواست ہے
*************************************************
نظر کا تیر ہو، سب دور دکھ آلام ہو جائے
شب ِ فرقت کے ماروں کو بھی کچھ آرام ہو جائے

ر ِدائے حسن کا کچھ پاس کر لغزش نہ ایسی ہو
نچے پردہ شرافت کا تو اور بدنام ہو جائے

شفق گالوں سے اترے اور حلاوت لب کی غائب ہو
تری مخمور آنکھوں کا بھی خالی جام ہو جائے

تری شعلہٴبیانی کی حقیقت اس طرح سے ہے
ترا چرچا دمن اور کوہ میں بس عام ہو جائے

تری باطل فطانت نے، اٹھائے ہیں بڑے محشر
نہ جانے راز تیرا کب یہ طشت از بام ہو جائے

تری فرقت نے چھوڑی ہے مرے چہرے پہ سلوٹ، وہ
شکن ماتھے کی جانے کب ہمیں دشنام ہو جائے

لبِ گویا جو وا کرتا تو کھلتا راز، اب یوں ہو
فصیل ِ ضبط ٹوٹے یا تجھے الہام ہو جائے

ترا جوبن بھی دھوکا ہو، مرا عہدِ وفا ٹوٹے
اگر ہونا یہی ہے تو یہی انجام ہو جائے

یوں اب کےتو مزاحِم ہو زمانے سے، مری جاناں
خموشی لب پہ تیرے گونجتا پیغا م ہو جائے

مری ساتھی !، چلیں اب کھیلتے موج ِ حوادث سے
معّطر تیری خوشبو سے، مری ہر گام ہو جائے

تراشوں گا حسیں پیکر کو کاشف اب غزل میں، کچھ
ترے آذر کا بھی شہر ِ صنم میں نام ہو جائے

*********************************************
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
نظر کا تیر ہو، سب دور دکھ آلام ہو جائے
شب ِ فرقت کے ماروں کو بھی کچھ آرام ہو جائے
÷÷÷÷ دکھ آلام کوئی ترکیب نہیں۔ نہ ہی دو مترادفات کو ایک ساتھ استعمال کرنا درست سمجھا جائے گا۔
دوسرا مصرع ÷÷÷ آرام آ جائے زیادہ بہتر تھا۔

ر ِدائے حسن کا کچھ پاس کر لغزش نہ ایسی ہو
نچے پردہ شرافت کا تو اور بدنام ہو جائے
۔۔۔نچے پردہ شرافت کا ۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔

شفق گالوں سے اترے اور حلاوت لب کی غائب ہو
تری مخمور آنکھوں کا بھی خالی جام ہو جائے
÷÷÷÷ میری سوچ سے آگے کی بات کر گئے آپ، شاید کوئی اور کچھ کہہ سکے ۔۔

تری شعلہٴبیانی کی حقیقت اس طرح سے ہے
ترا چرچا دمن اور کوہ میں بس عام ہو جائے
۔۔۔ حقیقت ا س طرح سے ہے ۔۔۔ غیر فصیح ہے ۔۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے شاید واضح ہوتا، لیکن مصرعے کے حساب سے کچھ اور ہونا چاہئے۔
÷÷÷ دمن اور کوہ کا مسئلہ بھی وہی ہے کہ غیر فصیح محسوس ہورہا ہے۔ پھر عام ہوجائے ہی کافی تھا۔ "بس" کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔

تری باطل فطانت نے، اٹھائے ہیں بڑے محشر
نہ جانے راز تیرا کب یہ طشت از بام ہو جائے
÷÷÷ فطانت ذہنی صلاحیت ہے ۔ اسے باطل کہہ دیا تو مطلب یہ ہوا کہ وہ موجود نہیں تھی۔ جب موجود نہیں تھی تو اس نے محشر کیسے اٹھائے؟
÷÷÷ دوسرا مصرع: "یہ " غیر ضروری ہے، یا پھر اس کی جگہ غلط ہے۔

تری فرقت نے چھوڑی ہے مرے چہرے پہ سلوٹ، وہ
شکن ماتھے کی جانے کب ہمیں دشنام ہو جائے
۔۔۔ ایک مصرعے میں سلوٹ ہے جو چہرے پر ہے اور دوسرے میں وہی شکن کے مترادف میں سما کر ماتھے پر جا پہنچی۔ یہ اعتراض باطل بھی ہو تو مضمون کوئی خاص نہیں۔

لبِ گویا جو وا کرتا تو کھلتا راز، اب یوں ہو
فصیل ِ ضبط ٹوٹے یا تجھے الہام ہو جائے
۔۔۔کس راز کی بات ہو رہی ہے، یہ واضح نہیں، میں لب گویا پر بھی کچھ کہتا لیکن شاید آپ نے انسپریشن اس مصرعے سے لی ہو: وا کرسکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں۔۔

ترا جوبن بھی دھوکا ہو، مرا عہدِ وفا ٹوٹے
اگر ہونا یہی ہے تو یہی انجام ہو جائے
۔۔ جوبن یعنی جوانی، وہ دھوکا کیسے ہوسکتی ہے؟ ۔عہدِ وفا کا اس سے تعلق؟وہ تو آخری سانس تک نبھانا ضروری ہوتا ہے۔

یوں اب کےتو مزاحِم ہو زمانے سے، مری جاناں
خموشی لب پہ تیرے گونجتا پیغا م ہو جائے
۔۔۔ اچھا مضمون ہے لیکن ۔۔۔ کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لیے ۔۔۔ تشنگی باقی رہ جاتی ہے، مضمون کا ابلاغ درست نہیں لگتا۔

مری ساتھی !، چلیں اب کھیلتے موج ِ حوادث سے
معّطر تیری خوشبو سے، مری ہر گام ہو جائے
۔۔۔ پہلا مصرع بری طرح متاثر لگتا ہے ۔۔۔ چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے، یہ بات نظر انداز بھی کی جائے تو موجِ حوادث سے کھیلتے ہوئے خوشبو کا احساس کس حد تک باقی رہے گا؟

تراشوں گا حسیں پیکر کو کاشف اب غزل میں، کچھ
ترے آذر کا بھی شہر ِ صنم میں نام ہو جائے
۔۔۔ کچھ کا لفظ دوسرے مصرعے سے جوڑا گیا ہے لیکن وہ غیر ضروری ہے۔ اس کے بغیر بھی دوسرا مصرع مکمل ہے۔یہ الگ بات کہ "کابھی" میں کا کا الف ساقط ہے جس سے "کبھی " کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ۔
پہلا مصرع درست کرنا چاہئے۔ ویسے بھی یہ مقطع ہے اور اس کا جاندار ہونا ضروری ہے۔۔
 
بہت بہت شکریہ جناب ۔
آپ کا تبصرہ نہایت عمدہ ہے۔ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
جزا ک اللہ ۔(y)
میں اس غزل پر دوبارہ کام کرونگا۔
انشا اللہ ۔
 
Top