کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام اعلیکم
ایک غزل بحر ہندی میں اصلاح کی غرض سے پیش کر رہا ہوں۔ استاد محترم الف عین، اور احباب بطور خاص جناب @راحیل فاروق، جناب محمد ریحان قریشی ، جناب شاہد شاہنواز ، جناب ادب دوست سے رائے، صلاح اور اصلاح کی گزرش ہے۔ ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ
ایک غزل بحر ہندی میں اصلاح کی غرض سے پیش کر رہا ہوں۔ استاد محترم الف عین، اور احباب بطور خاص جناب @راحیل فاروق، جناب محمد ریحان قریشی ، جناب شاہد شاہنواز ، جناب ادب دوست سے رائے، صلاح اور اصلاح کی گزرش ہے۔ ممنون فرمائیں۔ جزاک اللہ
-----------------------------------------
رات میں خود سے باتیں کر کے نہر درد کی جاری کی !
اس حالت ميں غزلیں لکھ کر سب پر رقّت طاری کی !
اک پیغام جوابی لکھ کر ساتھ غزل کے بھیجا ہے
خاک اڑے گی اس ساون میں، تم نے جو آہ و زاری کی !
گورکنی جو ہم نے کی تھی وہ بھی ایک ضرورت تھی
وقت کی مٹی ڈال کے کچھ رشتوں پر گریہ و زاری کی !
دیکھو نئے زمانے میں یہ ممکن ہونے والا ہے
خواب سے اٹھ کر من چاہی تعبیر کی پیوندکاری کی !
ذہن کی گہری جھیل سے میری حسنِ سخن مرغابی نے
یاد کے موتی تہہ سے چن کر غزل کی ریزہ کاری کی !
ایک رسیلی صبح کا آنگن، اک بھڑکیلی شام کی چھت
کس کس رنگ میں یادیں اتریں اس پاپن اس ناری کی !
ایک نشیلی آنکھ کی مستی، گت متوالی، اس کی چال
فوراً شعر میں باندھ کے رکھ دی، ہم نے یہ ہشیاری کی !
ایک گلابی آنچل میں دو پھول تھے اپنے جوبن پر
تیز نظر سے جو رہ گئے تھے بچ کر کسی پجاری کی !
جس کا نام محبت ہے وہ اک آفاقی جذبہ ہے
سند جو ڈھونڈو مل جائے گی اس پہ صحیح بخاری کی !
کم خوابی کی عادت سے اک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے
کاشف غزلیں کہہ لیتا ہے شب بھر جو بیداری کی !
سیّد کاشف
---------------------------------
رات میں خود سے باتیں کر کے نہر درد کی جاری کی !
اس حالت ميں غزلیں لکھ کر سب پر رقّت طاری کی !
اک پیغام جوابی لکھ کر ساتھ غزل کے بھیجا ہے
خاک اڑے گی اس ساون میں، تم نے جو آہ و زاری کی !
گورکنی جو ہم نے کی تھی وہ بھی ایک ضرورت تھی
وقت کی مٹی ڈال کے کچھ رشتوں پر گریہ و زاری کی !
دیکھو نئے زمانے میں یہ ممکن ہونے والا ہے
خواب سے اٹھ کر من چاہی تعبیر کی پیوندکاری کی !
ذہن کی گہری جھیل سے میری حسنِ سخن مرغابی نے
یاد کے موتی تہہ سے چن کر غزل کی ریزہ کاری کی !
ایک رسیلی صبح کا آنگن، اک بھڑکیلی شام کی چھت
کس کس رنگ میں یادیں اتریں اس پاپن اس ناری کی !
ایک نشیلی آنکھ کی مستی، گت متوالی، اس کی چال
فوراً شعر میں باندھ کے رکھ دی، ہم نے یہ ہشیاری کی !
ایک گلابی آنچل میں دو پھول تھے اپنے جوبن پر
تیز نظر سے جو رہ گئے تھے بچ کر کسی پجاری کی !
جس کا نام محبت ہے وہ اک آفاقی جذبہ ہے
سند جو ڈھونڈو مل جائے گی اس پہ صحیح بخاری کی !
کم خوابی کی عادت سے اک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے
کاشف غزلیں کہہ لیتا ہے شب بھر جو بیداری کی !
سیّد کاشف
---------------------------------
آخری تدوین: