پروین شاکر بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے - پروین شاکر

فرخ منظور

لائبریرین
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویّہ جو ہوا کو خس و خاشاک سے ہے

بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے


ایک دوست نے مجھے یہ اشعار ایس ایم ایس کیے اور جب اسے سے میں نے فون پر رابطہ کرکے پوچھا کہ یہ اشعار کس کے ہیں تو پتہ چلا کہ پروین شاکر کے ہیں - مجھے پروین شاکر پسند نہیں لیکن یہ اشعار سن کر میں حیران رہ گیا مزید استفسار پر پتہ چلا کہ یہ ان کی کتاب "انکار" سے لیے گئے ہیں لیکن ان صاحب کے پاس کتاب موجود نہیں - میری سب ممبران سے درخواست ہے کہ اگر یہ کتاب کسی کے پاس ہو تو براہِ مہربانی یہ غزل مکمل فرما دیں - بہت عنایت ہوگی -
 

فرخ منظور

لائبریرین
پچھلے سال 14 اگست کو پروین شاکر کی میں یہ غزل ڈھونڈ رہا تھا۔ فاتح صاحب نے ایک پرانی احمد ندیم قاسمی صاحب کی نظم کھنگالی تو مجھے بھی اس کا خیال آیا۔ کیونکہ شاید مجھے یہ غزل مکمل مل گئی ہے لہٰذا مکمل دوبارہ ارسال کر رہا ہوں۔

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے


خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویّہ جو ہوا کو خس و خاشاک سے ہے


بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے


اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں
یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے


ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کےہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے

 

فاتح

لائبریرین
قبلہ فرخ صاحب! موقع کی مناسبت سے پروین شاکر کی یہ خوبصورت غزل شریک محفل کرنے پر بے حد شکریہ خصوصاً اس لیے بھی کہ میری تلاش کے باعث آپ کو مہمیز ملی۔;)
دبئی کے ایک مشاعرے کی ویڈیو پیش خدمت ہے جس میں پروین شاکر اپنی یہی غزل ارشاد فرما رہی ہیں:
 

زونی

محفلین
شکریہ فاتح‌ ، اب تو اچھی خاصی تصدیق ہو گئی اور اسی کے ساتھ فرخ ‌بھائی بھی پروین شاکر کے فینز میں شامل ہو گئے ہیں ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فاتح‌ ، اب تو اچھی خاصی تصدیق ہو گئی اور اسی کے ساتھ فرخ ‌بھائی بھی پروین شاکر کے فینز میں شامل ہو گئے ہیں ;)

واہ! یہ بات میں کہنا چاہتا تھا اچھا ہوا زونی تم نے کہہ دی۔ :) واقعی پروین کا کچھ کلام کافی عمدہ ہے۔
 
محترم فرخ منظور صاحب
میں نے بھی پروین شاکر کی یہ غزل سنی اسکا چوتھا شعر یوں ہے
اتنی روشن ہے تیری صبح کہ دل کہتا ہے
یہ اجالا تو کسی دیدہ نمناک سے ہے
...
اتنی روشن ہے تیری صبح کہ ہوتا ہے گماں
کہیں تو سارا وزن ٹوٹ جاتا ہے.
شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویّہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے

اتنی روشن ہے تری صبح کہ دل کہتا ہے
یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے

ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کےہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے

(پروین شاکر)
 
آخری تدوین:
Top