ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
بدرالقادری مصباحی فکرِ اقبال کے حسین و جمیل مظہر
مولانا بدرالقادری مصباحی کا شمار ممتاز دانش ور عالمِ دین،بلند پایہ محقق، مایۂ ناز ادیب،بے مثل واعظ اور عظیم مبلغ و داعیِ دین میں ہوتا ہے۔آپ کی ذات ہمہ جہت خوبیوں کی حامل ہے۔دورِ حاضر کے بریلوی علما میں آپ منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔موصوف اردو نثر نگاری میں بلندمقام رکھتے ہیں۔آپ کا اسلوب بہت ہی عمدہ اور دل نشیٖن ہے۔آپ کی ولادت گھوسی،ضلع اعظم گڑھ میں ۱۹۵۰ء کو ہوئی،تعلیم و تربیت عصری درس گاہ کی بجاے صرف جامعہ اشرفیہ عربی یونی ورسٹی مبارک پور میں ہوئی۔ ۱۹۷۸ء سے آپ دیارِ مغرب ہالینڈ کی سر زمین پر مذہبِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ جہاں ’’نداے اسلام‘‘نامی ماہ نامہ اردو اور انگلش زبانوں میں بیک وقت آپ کی ادارت میں جاری ہے۔آپ کا اشہبِ قلم نثر و نظم دونوں میدانوں میں یکساں رواں دواں ہے ۔ نثری شہ پارے ۳۵ سے متجاوز ہیں تو شعری کتب ۱۵ سے زائد۔آپ نے شاعری کی جملہ اصناف میں کامیاب طبع آزمائی کی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر آپ کی اصلاحی و انقلابی نظموں کا مجموعہ ’’الرحیل‘‘ ہے۔آپ کی نظموں میں شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کے افکار و تخیل اور رنگ و آہنگ کی ایسی آمیزش ہے کہ اس پر اصل میں اقبالؔ کے اشعار کا شبہ ہونے لگتا ہے۔پورا مجموعۂ کلام ’’الرحیل‘‘ اقبالؔ کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔چند مثالیںنشانِ خاطر فرمائیں ؎
شورِ تکبیر سے کونین لرز جاتے تھے
تو نے افسوس ! کہاں دیکھی و ہ ضربِ مضراب
تو چمکتا تھا صداقت کا ستارا بن کر
عدل و انصاف کی کشتی کا کنارا بن کر
درس دیتا تھا مساوات کا تو عالم کو
اپنی ہی زلفوں کے اب روتا ہے پیچ و خم کو
تعلیم فقط وضع بدل دیتی تو کیا غم
ہے یاں رخِ الحاد پہ افکار کا دھارا
غرناطہ و اسپین را اقبالؔ بزارد
بدرؔ ارضِ فلسطیٖن و مقاماتِ ہدارا
جل رہا ہے قبلۂ اوّل تمہارا آگ میں
اور تم کھوئے ہوئے ہو زندگی کے راگ میں
مولانا بدرالقادری مصباحی استاذ الاساتذہ حافظِ ملّت شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کے قابل فخر شاگردہیں یہ انھیں کی خوشہ چینی کا فیض ہے کہ مولانا بدرالقادری مصباحی اتنی گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ مولانا کی ایک تاریخی نظم جس کا عنوان ہے ’’حافظِ ملّت‘‘اس کے چند بند خاطر نشین ہوں جو اقبالؔ کے رنگ و آہنگ سے مملو ہے ؎
یہ کون اُٹھا ہندِ شمالی کی زمیں سے
علم اور حقایق کی سنبھالے ہوئے قندیل
سدرہ کے مکینوں سے سنا بدرؔ نے اک راز
ہونے کو ہے اب آرزوئے شوق کی تکمیل
مظلومیتِ قوم کا رُخ دیکھنے والی
سرمستِ تحیر یہ زمیں بوس نگاہیں
پوشیدہ نہیں مردِ خدا بیٖں کی نظر سے
اے قوم تری زندگی و موت کی راہیں
افکار پہ ماضی کا دَرَخشَندہ زمانہ
آنکھوں پہ مچلتی ہوئی تاریخِ کہن ہے
میدانِ عمل میں یہ جواں مرد امنگیں
پیری میں تھکن ہے نہ کوئی ضعفِ بدن ہے
مولانا بدرالقادری مصباحی خوابِ غفلت کے نشّے میں چور قومِ مسلم کو بیدار اور باہوش دیکھنا چاہتے ہیں اور امتِ بیضا کی زبوں حالی پر تڑپ اٹھتے ہیں امتِ مسلمہ کے تئیں آپ کا گہرا کرب و غم دیکھنا ہوتو یہ اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
اے مری قوم! تجھے عظمتِ رفتہ کی قسم
تجھ میں سوئے ہوئے احساسِ شکستہ کی قسم
غیرتِ دیں کا مرقع تھی کبھی تیری سرشت
آج کیوں قعرِ مذلّت ہے تری جائے نشست
تو نے اوصافِ کہن کھو کے جہاں کھو ڈالا
بیچ دی اپنی خودی عزمِ جواں کھو ڈالا
کیا مِلا عظمتِ اسلام کو رُسوا کرکے
چند ٹکڑوں کے لیے دین کا سودا کرکے
ہے مسلمان تو پھر شانِ مسلمانی لا
اہلِ ایماں ہے توکردار بھی ایمانی لا
تُو بگولوں کی طرح اُٹھا تھا ویرانوں سے
اس ارادے سے کہ ٹکرائیں گے طوفانوں سے
اب یہ عالم ہے کہ تُو خود کو بھُلا بیٹھا ہے
مایۂ عزتِ مسلم کو لُٹا بیٹھا ہے
امتِ مسلمہ کی تاریخ بڑی روشن اور تاب ناک ہے۔ درِ خیبر کو بھی ہم نے ہی اکھاڑا ،دریاوں کی روانی میں موجوں سے بے خطر ہوکر اپنے گھوڑے بھی ہم نے ہی دوڑائے ،اجنبی ملک پر جاکر اپنی کشتیوں کو جلانے کے بعد ہر ملک ملکِ ماست کہ مِلکِ خدائے ماست کا نعرہ بھی ہم نے ہی لگایا اور ع
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر…اسلامی شوکت و اقتدار کا پرچم لہرایا۔ اور یہی علاقے اس ذلت و نکبت کے بھی امیٖن ہیں کہ بغداد کی تاتاریوں نے اینٹ سے اینٹ بجائی،غرناطہ کا سقوط ہوااور جس راہ سے طارق فاتحانہ شان سے گئے تھے اسی سے چھ لاکھ مسلمان نہایت بے سروسامانی کے عالم میں ملک بدر ہوئے اور کوئی ان پر آنسو بہانے والا بھی نہ تھا۔ ماضی کی روشن تاریخ کے مقابل آج ہمارا حال بالکل برعکس ہے ہم اُن جاں باز سرفروش مجاہدین کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہماری شریانوں میں بہتا ہوا خون جو کبھی جذبۂ جہاد سے گرم تر رہا کرتا تھا آج بالکل سرد ہے نکبت و خواری کے دلدل میں دھنسنا ہمارا مقدر بنتا جارہا ہے بدرالقادری مصباحی جیسے حساس طبیعت کے حامل فرد پر اس خواری و نکبت کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور وہ یوں گویا ہوتے ہیں ؎
اپنی تاریخ کو جو قوم بھُلا دیتی ہے
صفحۂ دہر سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
تو نے دریا کی روانی پہ حکومت کی ہے
یعنی ہر آنی و فانی پہ حکومت کی ہے
تیرے ہی گھوڑوں کی ٹاپوں کے اثر سے ہمدم
مدتوں لرزے میں یورپ کی فضا تھی پیہم
بُودجانہ سی وہ اسلام سے اُلفت نہ رہی
اُمِّ عمارہ سی تابندہ محبت نہ رہی
کوہِ طارق پہ نہ اب طارقِ ذی شاں ہی رہا
اندلس کا نہ وہ موسا سا نگہباں ہی رہا
پانی پت اب بھی ہے ابدالی کی تلوار نہیں
اب کسی رن میں تری تیغوں کی جھنکار نہیں
تیرا جب تک رہا قبضۂ شمشیر پہ ہاتھ
رحمتِ ربِّ دوعالم رہی تیرے ساتھ
اور جب تو نے وہ دستورِ عمل چھوڑ دیا
رحمتِ خالقِ مطلق نے بھی رُخ موڑ لیا
مایوسیوں کے ایسے گہرے اندھیرے میں بدرالقادری مصباحی کی فکر ی جولانی امید و بیم کی کرن تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے ؎
بازوئے مسلمِ خستہ ابھی کم زور نہیں
یہ جو اُٹھ جائے تو اس سے کوئی شہِ زور نہیں
آج بھی ہم اُفقِ دہر پہ چھا سکتے ہیں
ہم جو چاہیں تو تشدّد کو مٹا سکتے ہیں
اور اس ضمن میں ہمیں کون سا کام کرنا پڑے گا ؟ کیسی قربانی دینی ہوگی؟ اس کا پیغام دیتے ہوئے نوجوانانِ ملت ِاسلامیہ سے خطاب کرتے ہیں کہ ؎
کردے بے پردہ مساوات کی تنویروں کو
توڑ دے بندشِ آلام کی زنجیروں کو
سُرخ روئی کے لیے سرکو کٹانا ہوگا
زندگی کے لیے ہستی کو مٹانا ہوگا
مولانا بدرالقادری مصباحی شاعری کو محض اپنی طبعی تسکین یا تکمیلِ ذوق کے لیے اپنانے کو معیوب تصور کرتے ہیںان کی شاعری محض شاعری نہیں بل کہ حیات افروزی ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ افرادِ قوم کی زندگی کے مدو جزر میں شاعری سے ایک باخبر ناخدا کاکام لیاجانا چاہیے اور عظمتِ لوح و قلم کی سودے بازی سے کوسوں دور رہتے ہوئے گرمیِ تقریر اور شوخیِ تحریر سے گریز کرتے ہوئے معنی و مطالب کے موتیوں کی مالا پرونا چاہیے اور مَے توحید اور بادۂ عشقِ سرور صلی اللہ علیہ وسلم میں خود کو سرشار رکھنا چاہیے ؎
ہے فضائے دہر پہ الحاد و لادینی محیط
عظمتِ لوح و قلم کی سودے بازی عام ہے
اے جواں! صدق و صفا عدل و مروّت کی قسم
پھر جہاں میں ذوالفقارِ حیدری کا کام ہے
خوب صورت ہے لفافہ اور اندر کچھ نہیں
شوخیِ انشا ہے گر تو گوہرِ معنا بھی لا
دیں ، کتابِ فلسفہ کے خشک مزعومے نہیں
پی مَے توحید عشقِ سرورِ دانا بھی لا
مولانا بدرالقادری مصباحی نے رومانی شاعروں کے عیش و عشرت اور رامش و رنگ کی محفل کو درہم برہم کرکے رگِ ہستی کو چھیڑا ہے اپنے ساز کے تار سے ایسے نغمات ا لاپے ہیں اور اس انداز سے نغمہ سرائی کی ہے کہ ان کے مطالعہ سے ذہنوں میں انقلاب پیدا ہوتا ہے اور خوابیدہ دلوں میں بیداری کی لہر دوڑنے لگتی ہے ؎
میں مسلمان ہوں حق بات پہ مرنے والا
بادۂ صبر سے ہنس ہنس کے گزرنے والا
خوں چکاں گردشِ آلام کے جھونکے آئیں
ہر طرف ظلم و تباہی کی گھٹائیں چھائیں
بدلیاں مینہ کی جگہ سنگِ ستم برسائیں
میں نہیں پھر بھی صداقت سے مکرنے والا
کوئی کہہ دے یہ ذرا جاکے ستم گاروں سے
مجھ کو وحشت نہیں کچھ خون کے فوّاروں سے
کھیلتا آیا ہوں میں تیغوں کی جھنکاروں سے
ڈوب کر اپنے لہو میں ہوں اُبھرنے والا
میں جو جیتا ہوں تو غازی کا لقب پاتا ہوں
خلد میں بعد شہادت کے پہنچ جاتا ہوں
جان دے کر بھی حیاتِ ابدی پاتا ہوں
اور ہوگا وہ کوئی موت سے ڈرنے والا
مولانا بدرالقادری مصباحی داعی ومبلغِ اسلام ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل ہیں۔ آپ شاعری کے ذریعہ قومِ مسلم کو بیدار کرکے پوری دنیا میں عظیم اسلامی انقلاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے یہاں تصنع اور لفاظی کی کوئی قیمت نہیں آپ کی پاکیزہ فکر،اصلاحِ اُمّت و انقلاب کی سچی تڑپ،اسلام کی تبلیغ کا جذبۂ بیکراں آپ کے کلام کے حقیقی عناصر ہیں آپ شاعرسے پہلے ایک مسلمان ہیں اس لیے آپ کے نظریات بھی اعلا ہیں ’’حقائق‘‘ عنوان کے تحت الرحیل کے پیش لفظ میں خود لکھتے ہیں :
’’ چوں کہ شاعر سے پہلے میں ایک مسلمان ہوں اور بلاتقسیم ملک و وطن ،وحدتِ کلمہ کی بنیاد پر دنیا کاہر مسلمان میرا اپنا بھائی ہے۔ میری قوم ’خیرِ امت‘ ہونے کے باعث تہذیبِ انسانی کے لیے نہ صرف رہِ نمائی کے لایق ہے بل کہ بلا شرکتِ غیرے ’واحد حق دار‘ ہے اور اقدارِ اسلامی ہی ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اسلام زندۂ جاوید دین ہے اور صرف اسی کے اصولوں میں جہاں داری و جہاں بانی کی صلاحیت موجود ہے ۔ اس لیے میرایہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں عظیم اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر زبان کے مسلمان شاعر پر بھی اپنے گرد و پیش کو ’انقلابی رحلت‘ کے لیے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی ولولہ پیدا کرنے کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے‘‘۔(الرحیل ص )
مولانا بدرالقادری مصباحی کے ’’حقایق ‘‘ کے ان جملوں کی روشنی میں ’’الرحیل ‘‘کو پرکھنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی ولولہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور قوم و ملت کو نسخۂ تعمیرِ امت عطا کیا ہے۔ یہ مولانا کا عجز ہے کہ آپ الرحیلؔ کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ’’نہ میںاس کے ذریعہ ادبی شہ پاروں میں کسی عظیم اضافہ کا مدعی ہوں‘‘۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ الرحیلؔ جیسے صنائع و بدائع اور شعری و فنی محاسن سے لبریز ، ترجمانِ حقیقت فکرِ اقبال سے مزین مجموعۂ کلام کو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ……
الرحیلؔ شعری دنیا کے ادبی شہ پاروں میں ایک گراںقدر اضافہ ہے۔
الرحیلؔ مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور ایمانی جوش و ولولہ پیدا کرنے کیلئے صوتِ انقلاب ہے۔
الرحیلؔ اصلاحِ امت اور انقلاب و بیداری کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔
الرحیلؔ بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم کوچ کرنے کی بانگِ درا ہے۔
لاریب!
الرحیلؔ گم گشتگانِ راہ کے لیے نشانِ مقصود تک رسائی کا وسیلہ ہے۔
اور شاعرِ محترم فکرِ اقبال کے حسین و جمیل مظہر ہیں ۔
٭٭٭