قصور وار "مولوی" ہرگز نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جس نے دین کا استعمال صرف اپنی روزی روٹی تک محدود رکھا ہے.... جس نے حیا صرف عورت ذات تک محدود کر دی ہے..... جس نے علم صرف "مولوی" تک محدود کر دیا ہے..... جس نے حق صرف مردوں تک محدود کر دیا ہے..... جس نے "مرد عورت سے افضل" کا مطلب صرف اپنے فائدے تک محدود کر دیا ہے لیکن....
اگر آپ غور کریں تو.....
1. جس کے پاس علم ہے وہ دوسروں تک صحیح معنی میں پہنچائے نا کہ اپنی روزی روٹی تک محدود رکھے، لوگوں کے مطلب کی بات کر کے اپنا مطلب نکالے.... اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کرے.... تو بنیادی طور پر ایک عالم ہی علم بانٹتا ہے اور وہ اس وقت تک صحیح ہے جب اسے اپنی ذات سے زیادہ اپنے معاشرے کی فکر ہو.....
2. تالی یقینا ایک ہاتھ سے نہیں بجتی.... لوگوں میں بھی یہ بیداری ہو کون انہیں گمراہ کر رہا ہے اور کون انہیں راہ راست پہ لانا چاہ رہا ہے.... ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں لیکن بہت کم.... اس لیے قران پاک میں بار ہا اکثرھم کا صیغہ برے لوگوں کی طرف استعمال کیا گیا ہے "مگر بہت کم" ان لوگوں کے لیے جو راہ راست پر ہیں.... دوسری بات ایسے کم لوگ ہمیشہ ہر دور میں ان لوگوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں جو دین کو دکان کے طور پر استعمال کرتے ہیں.... اس لیے جلد یا بدیر ان کو اسلام کا نام "استعمال" کر کے "راہ سے ہٹا" دیا جاتا ہے.....
رہی بات شریعت کے نفاذ کی.... حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو....
1. کیا شریعت نبوت کے اعلان کے فورا بعد معاشرے پر آ گئی ؟؟؟
2. کیا عوام کو ٹھیک کرنے کے لیے سچے، مخلص اور ایماندار عالم کا ہونا ضروری نہیں؟؟؟
عوام پر تاثیر تب جاتی ہے جب عالم کے قول و فعل میں خود تضاد نہ ہو..... صحیح علم ایک صحیح عالم ہی اپنے معاشرے میں بانٹ سکتا ہے.....
پھر وہی بات دہراؤں گا جزا و سزا معاشرے کے پھلنے پھولنے کے لیے لازمی ہے اور کوئی بھی شخص اس سے مبرا نہیں ہے.... قومیں تو ہوتی ہی گمراہ آئی ہیں اس لیے ہر دور میں نبی آیا ہے.... چونکہ اب نبوت کا سلسلہ بند ہے معاشرے کی تربیت کس کے ذمہ ہے یا کس نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے..... ذرا غور کریں.....
پہلی بات تو یہ ہے کہ دین کے علم کا حاصل کرنا کسی ایک پر فرض نہیں
دوسری بات دکانداری کرنے والوں کا ضور ہمیشہ گمراہوں پر چلتا ہے یا کم علم پر تو اس کا حل یہی ہے کہ ہر کوئی علم حاصل کرے اسی طرح معاشروں کی اصلاح ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان اور اللہ کے نبی کا طریقہ بھی یہی ہے۔
تیسری بات جو آپ نے کہا تضاد نہ ہو تو اس کی دو ہی صورتیں ہیں ایک یہ کہ اس کے مقابلے میں ایک اچھا نمونہ پیش کیا جائے اور دوسرا دوبارہ کہوں گا کہ جب ہر کوئی اپنی اصلاح کے لئے علم حاصل کرتا ہے تو اس کے اندر اچھے اور برے کی تمیز آجاتی ہے اوراس طرح حق کی جیت اور باطل کی شکست ہو جاتی ہے۔
چوتھی بات اچھے اور برے لوگ ہر دور میں ہوتے ہیں ۔ اور انسان کے اختیار میں صرف اچھی بات کا پرچار ہے باقی ہدائت اللہ جسے چاہیں ملتی ہے۔۔ انسان کے بس میں صرف کوشش ہے۔
پانچویں بات کہ یہ بیڑا کسی ایک کو نہیں سونپاگیا کہ فلاں خاندان یا گروہ تبلیغ کرے گا اور باقی سب مبرا ہیں۔ یہی اصل نقطہ ہے جو میں آپکو سمجھانا چاہتا ہوں مگر آپ گھما کےبات پھر وہیں لے آ تے ہیں ۔ اگر کوئی اچھاکام نہیں کرتا تو بہت سارے ایسے بھی ہونگے جو اچھے طریقے سے کام کر بھی رہے ہونگے۔ اور جو برا کرتا ہے اس کی سزا بھی تو وہی بھگتے گا یہی سزا اور جزا کا مقصد اور اصول ہے
چھٹی بات اگر کوئی بھی آپ کی نظر میں صحیح کام نہیں کر رہا تو آپ جیسے ذہیں اور پڑھے لکھے لوگوں کو چاہیے کہ اچھے کام کا آغاز کریں اور انسانیت کو فلاح کی طرف لے کر چلیں
ساتویں بات جزا اور سزا کا تصور بھی ہے اور اس دنیا میں بھی طریقہ کار موجود ہے اور قیامت کے دن کو بھی جزا سزا ملے گی۔
جزا اور سزا کا تصور بھی یہی ہے کہ جو برا کرے گا اس کو سزا ملے گی اور جو اچھا کرے گا اس کو جزا لہذا ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے نہ کہ دوسرے کا۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کریں اور دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں یہی پیغمبروں نے بھی کیا اور یہی اب ذمہ داری قیامت تک آنے والے انسانوں کو سونپی گئی ہے۔ باقی ہدائت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے دے