ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک اور پرانی غزل احبابِ کی خدمت میں ۔ یہ ردی کی ٹوکری کو چھُو کر واپس آئی ہے ۔ کچھ دوستوں کے کہنے پر یہاں پیش کررہا ہوں ۔ شاید ایک آدھ شعر کام کا نکل آئے ۔
لُٹا ہے میرا خزانہ مرے برابر سے
بدل گیا وہ ٹھکانہ مرے برابر سے
جو تِیر میرا نہیں تھا اُسی کا مجرم ہوں
لیا گیا تھا نشانہ مرے برابر سے
پلٹ کے کر گیا تلقین مجھ کو رُکنے کی
ہوا ہے جو بھی روانہ مرے برابر سے
بڑھا گیا مرا احساسِ عمر ِ رفتہ کچھ اور
گزر کے یار پرانا مرے برابر سے
تمہی سے باقی ہے کچھ اعتبارِ بزمِ حیات
کبھی تم اُٹھ کے نہ جانا مرے برابر سے
***
ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارچ 2011
لُٹا ہے میرا خزانہ مرے برابر سے
بدل گیا وہ ٹھکانہ مرے برابر سے
جو تِیر میرا نہیں تھا اُسی کا مجرم ہوں
لیا گیا تھا نشانہ مرے برابر سے
پلٹ کے کر گیا تلقین مجھ کو رُکنے کی
ہوا ہے جو بھی روانہ مرے برابر سے
بڑھا گیا مرا احساسِ عمر ِ رفتہ کچھ اور
گزر کے یار پرانا مرے برابر سے
تمہی سے باقی ہے کچھ اعتبارِ بزمِ حیات
کبھی تم اُٹھ کے نہ جانا مرے برابر سے
***
ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارچ 2011