عبدالبصیر

محفلین
بدگمانیاں اور ہم،
کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے​

دوبئی میں دوست بہت کم ہی اچھے ملتے ہیں، راضی مصطفیٰ ایک ایسا ہی جگری یار ملا، شام کا رہائشی ہے پر ہنس کر ایسے ملتا ہے جیسے ہم نے بچپن میں گُلی ڈنڈا کُرم ایجنسی کے گلیوں میں ساتھ کھیلا ہو، آج وہ دوبئی مستقل چھوڑ کر شامی خانہ جنگی کی وجہ سے رومانیہ جارہا تھا تو حسب روایت اُسے ائیرپورٹ چھوڑنے گیا، ٹرمینل ون داخل ہوتے ہی میری نظریں ایک جانی پہچانی سی مشہور شخصیت پر پڑی اور نظریں پڑتے ہیں میں شرم سے پانی پانی ہوگیا۔​

وہ شخص جس کے بارے میں ہم نے انجانے میں غلط رائے قائم کی ہوتی ہے جب ہماری توقعات کے برعکس ملتا ہے تو دھچکا تو لگتا ہے، اندر سے آواز آئی "کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے"۔ شخصیت ہندی فلموں کے مشہور ولن محترم رضا مراد صاحب تھے، ولن کے کرداروں میں دیکھ دیکھ کر اور ہندی فلموں کے ساتھ جڑنے کی باعث ہم نے بدگمانی کی کیاریوں میں کیا کچھ اُگایا تھا ہمیں پتا ہی نہ چلا۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ موصوف وہی ولن والی زندگی گزار رہے ہونگے، یا کم ازکم شرابی تو ضرور ہونگے اور فیملی تو اسلامی شعائر کی جوتیاں بناکر پہنتی ہونگی، پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔​

آج اُس کو اُس کی فیملی سمیت دیکھا، بیٹھی ہوئی عورت شرعی پردے میں تھی جسکی طرف اپنی مردانہ فطرت سے ہٹ کر واقعی ایک ہی دفعہ دیکھ سکا اور ساتھ ایک چھوٹا لڑکا بھی تھا، خود بھی موصوف شلوار قمیس پہنے ہوئے تھی، اپنی بدگمانی پر دل ہی دل میں خود پر لعنت بھیجی، پتا نہیں کونسا مسلک، کس فرقے سے ہے، پر بات دل کو لگی اور آج پہلی مرتبہ زندگی میں کسی سیلیبریٹی کے ساتھ تصویر اُتارنے کا سوچا، واپسی پر سلام کرنے کیلئے مُڑا تو بینچ خالی تھی، شائد اُن کے فلائٹ کا ٹائم ہوا ہو۔۔۔۔۔۔ پر میں پورے راستے اپنی بدگمانیوں کا حساب کرتا رہا۔​
 
Top