بد دیانتی اور تعصب کی انتہا ، حل کیا ہے؟ اوریا مقبول جان

اسد

محفلین
... مغربی تہذیب کے مطابق کوئی فرد چاہے تو دوسرے مذاہب کی بزرگ شخصیتوں کا احترام کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
آپ کا مطلب ہے کہ یہی منطق اگر مغربی لوگ استعمال کریں تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ "اسلامی تہذیب کے مطابق کوئی فرد چاہے تو اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے سکول بھیجے اور چاہے تو ان کے سکول کو بم سے اڑا دے"۔

میں نے جو دوغلے پن کے بارے میں لکھا تھا وہ یہی ہے، ہماری تہذیب جسے آپ زبردستی اسلامی تہذیب بنانے پر مصر ہیں، ہمیں یہی دوغلا پن سکھاتی ہے۔ ہم چند افراد کے افعال کو مغربی تہذیب قرار دے دیں لیکن انہیں یہ حق دینے سے انکار کریں۔ ایک بات آپ سمجھ لیں جب بھی مذہب کو بیچ میں ڈالا جائے گا تو خود بخود تعصب پیدا ہو جائے گا کیونکہ مذاہب منظق کی 'بنیاد' پر نہیں ہوتے، ایمان (faith) کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا ایمان یہ ہوتا کہ 'میرا' مذہب سچّا ہے اور دوسرے تمام مذاہب جھوٹے ہیں۔ جب بات یہاں سے شروع ہو گی تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

کیا آپ تمام مذاہب کے سب بزرگوں کا احترام کرتے ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ سمجھ کر دیں کہ آپ سے پوچھا جا رہا ہے کہ "کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی، سینٹ پیٹر، سینٹ پال، سینٹ ہیلینا، رام چندر، گنیش، ہنومان، زرتشت، گوتم بدھ کا احترام کرتے ہیں؟" جواب صرف 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہونا چاہئیے، کسی اور جواب کا مطلب 'نہیں' سمجھا جائے گا۔

میں اپنا جواب لکھ دیتا ہوں، "نہیں، میں تمام مذاہب کے سب بزرگوں کا احترام نہیں کرتا"، میری تہذیب مجھے یہی سکھاتی ہے۔ یہی تہذیب مجھے یہ بھی سکھاتی ہے کہ اس قسم کی باتوں/مباحث سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے کسی نہ کسی کی دل آزاری ہو تی ہے۔ اسی لئے میں مذہب اور سیاست کے زمروں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

arifkarim

معطل
سارے مذاہب میں یہ تعلیم بھی مشترک ہے کہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کا احترام کیا جائے اور اُن کے لیے طنزوتشنیع اور گستاخانہ الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔ لیکن مغربی تہذیب کے مطابق یہ بھی ایک اضافی قدر ہے۔ مغربی تہذیب کے مطابق کوئی فرد چاہے تو دوسرے مذاہب کی بزرگ شخصیتوں کا احترام کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
محترم! اگر تو اسلامی تہذیب ہمیں دیگر مذاہب جیسے ہندودھرم، بدھمت، زرتشت، یہودیت، عیسائیت وغیرہ کی عظیم ہستیوں کے احترام کا سبق سیکھاتی تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا! آج سارا پاکستان ہندو ہوتا، ایران زرتشت ہوتا، افغانستان میں بدھمت کا راج ہوتا، ترکی، مصر، شام میں عیسائی گرجا گھروں کی بھرمار ہوتی اور فلسطین میں یہود یوں کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ لیکن تاریخ تو اس کے برعکس ہے۔پچھلے 1400 سالوں میں مسلمان حکمرانوں نے ایران سے قدیم زرتشت، پارسیوں کو ملک بدر کر دیا، مصر اور شام کے اکثر عیسائیوں کو مسلمان کر دیا، ترکی کےعظیم کلیساؤں اور گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا، پاکستان کے ہندوؤں کو دائرہ اسلام میں داخل کر دیا، افغانستان کے بدھمت مجسموں کو اڑا کر وہاں مساجد تعمیر کر دیں اور فلسطین میں یہودیوں کی قدیم عبادت گاہوں پر اپنی مقدس مساجد کھڑی کر دیں جو آج تک یہود - مسلمان اختلافات کی جڑ بنا ہوا ہے۔
بھارت میں ہندو - مسلمان اختلافات کی جڑ بابری مسجد شہید کرنے والے ہندؤں کا دعویٰ تھا کہ وہاں کبھی انکا قدیم مقدس مندر ہوتا جو کہ انکے مذہب کی عظیم ہستی راما کی جائے پیدائش تھا۔ آثار قدیمہ تلاش کرنے والے سائنسدانوں نے اس مقام کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے مادی اثبوت فراہم کئے ہیں جنکی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں کبھی ہندوؤں کا مندر ہوتا تھا جسے گرا کر مغل گورنر میر باقی تاشقندی نے وہاں بابری مسجد تعمیر کی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Archaeology_of_Ayodhya


اب یہی خوف بیت المقدس کے مسلمانوں کو لاحق ہے کہ اگر وہاں اسرائیلی حکومت نے آثار قدیمہ کے ماہرین کو تحقیق کی اجازت دے دی اور یہاں سے قدیم اسرائیلیوں کی تاریخ برآمد ہوگئی تو کہیں انہیں اپنی مقدس مسجد اقصیٰ سے ہی نہ ہاتھ دھونے پڑ جائیں! :)

ہماری اسلامی تہذیب نے کبھی خود تو ہمارا دین، ہمارا دین اور تمہارا دین، تمہارا دین کی پالیسی پر عمل کیا نہیں اور دوسروں کی تہذیب پر اعتراض ہے کہ وہ ہماری عظیم و مقدس بزرگان وہستیوں کا مذاق اڑاتی ہیں ۔جبکہ ہمارے قدیم حکمرانوں نے خود ہی دوسرے مذاہب کی مقدس عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کر کے آئندہ آنے والے مسلمانوں کیلئے عذاب کھڑا کر دیا!
 

arifkarim

معطل
میں اپنا جواب لکھ دیتا ہوں، "نہیں، میں تمام مذاہب کے سب بزرگوں کا احترام نہیں کرتا"، میری تہذیب مجھے یہی سکھاتی ہے۔

آپکی "اسلامی" تہذیب آپکو یہی سیکھاتی ہوگی۔ البتہ ہمارے گھر میں جو ہمیں اسلامی تعلیم دی گئی اسکے مطابق ہمیں کسی کے بتوں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے ۔ کیونکہ وہ ان کے پوجنے والوں کے نزدیک مقدس اور محترم ہوتے ہیں۔ اگر ہماری مساجد ہمیں عزیز ہیں تو بتوں کو پوجنے والوں کے مندر انہیں "وڈتے" ہیں :)
 
آپکی "اسلامی" تہذیب آپکو یہی سیکھاتی ہوگی۔ البتہ ہمارے گھر میں جو ہمیں اسلامی تعلیم دی گئی اسکے مطابق ہمیں کسی کے بتوں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے ۔ کیونکہ وہ ان کے پوجنے والوں کے نزدیک مقدس اور محترم ہوتے ہیں۔ اگر ہماری مساجد ہمیں عزیز ہیں تو بتوں کو پوجنے والوں کے مندر انہیں "وڈتے" ہیں :)
جزاک اللہ آ پکا ممنون ہوں کہ مجھے اس آیت کا یاد دلا دیا ہے
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ( 108 )
اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔ اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔ پھر ان کو اپنے پروردگار ک طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے


اس آیتِ کریمہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے امام عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر طبری، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت قتادہ ص سے روایت کیا ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کو برا کہتے تھے ردِ عمل میں کفار بھی اللہ تعالیٰ کو برا کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آیتِ مذکورہ نازل فرمائی اور مسلمانوں کو تاکیدی الفاظ میں ان جھوٹے معبودوں کے متعلق تنقیص کا کلمہ کہنے سے روک دیا۔ کیونکہ یہ بت پرست جن بتوں کے بارے میں صمیمِ قلب سے الٰہ ہونے اور نفع و ضرر کے مالک ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ان کے متعلق مسلمانوں کا کلمہِ تنقیص ان بت پرستوں کے غصہ کا سبب بنتا تھا۔ وہ مغلوب الغضب ہو کر جواب میں مسلمانوں کے حقیقی الٰہ اور سچے رب کو برا کہنے لگتے تھے

اگر اس عنوان پر بات کرنی ہے کہ ہم
بددیانتی اور تعصب کی انتہا۔۔۔ ۔حل کیا ہے؟۔۔۔ حل یہی ہے کہ بددیانتی اور تعصب سے باز رہا جائے
یہاں دوسرے حوالے سے بات ہو رہی ہے حریف سے بددیانتی اور تعصب کی انتہا کی شکایت ہے
 
آپ کا مطلب ہے کہ یہی منطق اگر مغربی لوگ استعمال کریں تو وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ "اسلامی تہذیب کے مطابق کوئی فرد چاہے تو اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے سکول بھیجے اور چاہے تو ان کے سکول کو بم سے اڑا دے"۔

میں نے جو دوغلے پن کے بارے میں لکھا تھا وہ یہی ہے، ہماری تہذیب جسے آپ زبردستی اسلامی تہذیب بنانے پر مصر ہیں، ہمیں یہی دوغلا پن سکھاتی ہے۔ ہم چند افراد کے افعال کو مغربی تہذیب قرار دے دیں لیکن انہیں یہ حق دینے سے انکار کریں۔ ایک بات آپ سمجھ لیں جب بھی مذہب کو بیچ میں ڈالا جائے گا تو خود بخود تعصب پیدا ہو جائے گا کیونکہ مذاہب منظق کی 'بنیاد' پر نہیں ہوتے، ایمان (faith) کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا ایمان یہ ہوتا کہ 'میرا' مذہب سچّا ہے اور دوسرے تمام مذاہب جھوٹے ہیں۔ جب بات یہاں سے شروع ہو گی تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔


اس سوال کا جواب یہ سمجھ کر دیں کہ آپ سے پوچھا جا رہا ہے کہ "کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی، سینٹ پیٹر، سینٹ پال، سینٹ ہیلینا، رام چندر، گنیش، ہنومان، زرتشت، گوتم بدھ کا احترام کرتے ہیں؟" جواب صرف 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہونا چاہئیے، کسی اور جواب کا مطلب 'نہیں' سمجھا جائے گا۔

میں اپنا جواب لکھ دیتا ہوں، "نہیں، میں تمام مذاہب کے سب بزرگوں کا احترام نہیں کرتا"، میری تہذیب مجھے یہی سکھاتی ہے۔ یہی تہذیب مجھے یہ بھی سکھاتی ہے کہ اس قسم کی باتوں/مباحث سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے کسی نہ کسی کی دل آزاری ہو تی ہے۔ اسی لئے میں مذہب اور سیاست کے زمروں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔
اس موضوع پر بات کرنی ہے تو اسے موضوع سے اسلام میں دوسرے مذاہب / تہذیب کے اکابر کا احترام ایک نیا تھریڈ شروع کروا دیں پھر آپ کی تسلی کروا دیں گے انشا اللہ
اور آپ بھول رہے ہیں ہر سوال کا جواب ہاں یا ںہیں میں نہیں ہوتا باقی مختصر جواب آپکو arifkarim صاحب نے دے دیا ہے
 

x boy

محفلین
محترم! اگر تو اسلامی تہذیب ہمیں دیگر مذاہب جیسے ہندودھرم، بدھمت، زرتشت، یہودیت، عیسائیت وغیرہ کی عظیم ہستیوں کے احترام کا سبق سیکھاتی تو پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا! آج سارا پاکستان ہندو ہوتا، ایران زرتشت ہوتا، افغانستان میں بدھمت کا راج ہوتا، ترکی، مصر، شام میں عیسائی گرجا گھروں کی بھرمار ہوتی اور فلسطین میں یہود یوں کا ڈنکا بج رہا ہوتا۔ لیکن تاریخ تو اس کے برعکس ہے۔پچھلے 1400 سالوں میں مسلمان حکمرانوں نے ایران سے قدیم زرتشت، پارسیوں کو ملک بدر کر دیا، مصر اور شام کے اکثر عیسائیوں کو مسلمان کر دیا، ترکی کےعظیم کلیساؤں اور گرجا گھروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا، پاکستان کے ہندوؤں کو دائرہ اسلام میں داخل کر دیا، افغانستان کے بدھمت مجسموں کو اڑا کر وہاں مساجد تعمیر کر دیں اور فلسطین میں یہودیوں کی قدیم عبادت گاہوں پر اپنی مقدس مساجد کھڑی کر دیں جو آج تک یہود - مسلمان اختلافات کی جڑ بنا ہوا ہے۔
بھارت میں ہندو - مسلمان اختلافات کی جڑ بابری مسجد شہید کرنے والے ہندؤں کا دعویٰ تھا کہ وہاں کبھی انکا قدیم مقدس مندر ہوتا جو کہ انکے مذہب کی عظیم ہستی راما کی جائے پیدائش تھا۔ آثار قدیمہ تلاش کرنے والے سائنسدانوں نے اس مقام کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے مادی اثبوت فراہم کئے ہیں جنکی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہاں کبھی ہندوؤں کا مندر ہوتا تھا جسے گرا کر مغل گورنر میر باقی تاشقندی نے وہاں بابری مسجد تعمیر کی:



اب یہی خوف بیت المقدس کے مسلمانوں کو لاحق ہے کہ اگر وہاں اسرائیلی حکومت نے آثار قدیمہ کے ماہرین کو تحقیق کی اجازت دے دی اور یہاں سے قدیم اسرائیلیوں کی تاریخ برآمد ہوگئی تو کہیں انہیں اپنی مقدس مسجد اقصیٰ سے ہی نہ ہاتھ دھونے پڑ جائیں! :)

ہماری اسلامی تہذیب نے کبھی خود تو ہمارا دین، ہمارا دین اور تمہارا دین، تمہارا دین کی پالیسی پر عمل کیا نہیں اور دوسروں کی تہذیب پر اعتراض ہے کہ وہ ہماری عظیم و مقدس بزرگان وہستیوں کا مذاق اڑاتی ہیں ۔جبکہ ہمارے قدیم حکمرانوں نے خود ہی دوسرے مذاہب کی مقدس عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کر کے آئندہ آنے والے مسلمانوں کیلئے عذاب کھڑا کر دیا!

ان باتوں پر غور کیا جائے،،
اگر مغل حکمران اچھے ہوتے تو آج کوئی کمار، سنھا، کرشناجی، مودی، راہول گاندھی کے نام والے نہیں ہوتے۔
ایران میں زرتشوں کا مکمل شہر ہے جہاں انکے ٹیمپل میں دوہزار سال سے بھی زیادہ عرصے جلنے والا الاؤ، آگ آج کی تاریخ میں بھی بغیر بجھائے یا بجھے جل رہا ہے، اسپین میں عیساؤں نے جو قیامت برپا کری تھی اس زمانے کے بادشاہ نے تک کہا تھا کہ تم اس کو توڑ کر گرجا تو بنا لوگے لیکن اس جیسا کبھی اور بنا نہیں پاؤگے ، گرجا گھر تو اور بھی کہیں بن سکتا ہے،

ان صاحب کو صرف اور صرف یہودیوں کی اور نصرانیوں کی حمایت کی داد دینی چاہیے ،، یہی تربیت پائی ہے ظاہر ہے جو نوالہ اندر جاتا ہے وہی دل و دماغ میں
بس جاتا ہے۔
 

اسد

محفلین
آپکی "اسلامی" تہذیب آپکو یہی سیکھاتی ہوگی۔
اب آپ بھی ہماری تہذیب کو مشرف بہ اسلام کرنے پر تل گئے :cool: جی ہاں، چاہے میرا دین مجھے کچھ اور سکھاتا ہو، میری تہذیب مجھے یہی سکھاتی ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہماری تہذیب اسلامی تہذیب نہیں ہے۔ ہماری تعلیم اسلامی ہے لیکن ہماری تہذیب (یعنی ہمارے اعمال) کچھ اور ہے۔
البتہ ہمارے گھر میں جو ہمیں اسلامی تعلیم دی گئی اسکے مطابق ہمیں کسی کے بتوں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہئے ۔ کیونکہ وہ ان کے پوجنے والوں کے نزدیک مقدس اور محترم ہوتے ہیں۔ اگر ہماری مساجد ہمیں عزیز ہیں تو بتوں کو پوجنے والوں کے مندر انہیں "وڈتے" ہیں :)
تعلیم تو مجھے بھی یہی دی گئی تھی اور میں اس پر عمل بھی کرتا ہوں(برا بھلا نہ کہنے والے حصے پر)۔ سوال برا بھلا نہ کہنے کا ہوتا تو میرا جواب یہی ہوتا، لیکن سوال احترام کرنے کا تھا۔ دل سے کسی کا احترام نہ کرنا اور اسے برا بھلا کہنا دو قطعی مختلف باتیں ہیں۔ میرے خیالات (احترام نہ کرنا) اور اعمال (تعلیم کی وجہ سے برا بھلا نہ کہنا) میں اس فرق کو دوغلا پن کہتے ہیں جو ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔
 
ان باتوں پر غور کیا جائے،،
اگر مغل حکمران اچھے ہوتے تو آج کوئی کمار، سنھا، کرشناجی، مودی، راہول گاندھی کے نام والے نہیں ہوتے۔
ایران میں زرتشوں کا مکمل شہر ہے جہاں انکے ٹیمپل میں دوہزار سال سے بھی زیادہ عرصے جلنے والا الاؤ، آگ آج کی تاریخ میں بھی بغیر بجھائے یا بجھے جل رہا ہے، اسپین میں عیساؤں نے جو قیامت برپا کری تھی اس زمانے کے بادشاہ نے تک کہا تھا کہ تم اس کو توڑ کر گرجا تو بنا لوگے لیکن اس جیسا کبھی اور بنا نہیں پاؤگے ، گرجا گھر تو اور بھی کہیں بن سکتا ہے،

ان صاحب کو صرف اور صرف یہودیوں کی اور نصرانیوں کی حمایت کی داد دینی چاہیے ،، یہی تربیت پائی ہے ظاہر ہے جو نوالہ اندر جاتا ہے وہی دل و دماغ میں
بس جاتا ہے۔
برادر آ پ کی معلومات ماشا اللہ بہت زبردست ہیں درخواست ہے تھوڑا ہتھ ہولا رکھو اخری فقرہ تسی تھوڑا زیادہ مصالہ نی پا دتا
ھمارا مقصد حکمت سے اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ مخاطب کی ایسی کی تیسی اور بحث جیتنا
 
اب آپ بھی ہماری تہذیب کو مشرف بہ اسلام کرنے پر تل گئے :cool: جی ہاں، چاہے میرا دین مجھے کچھ اور سکھاتا ہو، میری تہذیب مجھے یہی سکھاتی ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہماری تہذیب اسلامی تہذیب نہیں ہے۔ ہماری تعلیم اسلامی ہے لیکن ہماری تہذیب (یعنی ہمارے اعمال) کچھ اور ہے۔

تعلیم تو مجھے بھی یہی دی گئی تھی اور میں اس پر عمل بھی کرتا ہوں(برا بھلا نہ کہنے والے حصے پر)۔ سوال برا بھلا نہ کہنے کا ہوتا تو میرا جواب یہی ہوتا، لیکن سوال احترام کرنے کا تھا۔ دل سے کسی کا احترام نہ کرنا اور اسے برا بھلا کہنا دو قطعی مختلف باتیں ہیں۔ میرے خیالات (احترام نہ کرنا) اور اعمال (تعلیم کی وجہ سے برا بھلا نہ کہنا) میں اس فرق کو دوغلا پن کہتے ہیں جو ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔
اسد بھائی آپ کسی استاد یا کسی مذہبی راہنما سے اس بات کو سمجھ لیں آپ سے گزارش ہے -آپ کی بات وہ ہی ہے جو ہم کر رہے ہیں بس آپ لفظوں کے ہیر پھیر میں ہیں
 
"کیا آپ مرزا غلام احمد قادیانی، سینٹ پیٹر، سینٹ پال، سینٹ ہیلینا، رام چندر، گنیش، ہنومان، زرتشت، گوتم بدھ کا احترام کرتے ہیں؟" جواب صرف 'ہاں' یا 'نہیں' میں ہونا چاہئیے، کسی اور جواب کا مطلب 'نہیں' سمجھا جائے گا۔
ہم ان سب کا اکرام کرتے ہیں بحیثیت انسان۔۔۔قرآن پاک بھی کہتا ہے کہ "لقد کرّمنا بنی آدم "۔۔۔چنانچہ جو عزت ایک انسان کو دی جانے چاہئیے، ہ ہ انکا بھی حق ہے۔
ہر انسان کا احترام ہے اسکے انسان ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔
لیکن اس فہرست میں دو ہستیاں ایسی ہیں جو شائد انسان نہیں ہیں محض دیومالائی کردار ہیں (گنیش اور ہنومان)۔۔۔انکی توہین و تنقیص محض اس وجہ سے نہیں کی جائے گی کہ یہ کافی لوگوں کے لئے دیوتا یا بھگوان کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن کی تعلیم یہی ہے کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا مت کہو کیونکہ یہ دلآزاری ہے اور ردعمل میں بھی دلآزاری ہی کا خطرہ ہے۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ان صاحب کو صرف اور صرف یہودیوں کی اور نصرانیوں کی حمایت کی داد دینی چاہیے ،، یہی تربیت پائی ہے ظاہر ہے جو نوالہ اندر جاتا ہے وہی دل و دماغ میں
بس جاتا ہے۔

اگر یہود و نصاریٰ کیخلاف کچھ لکھوانا ہے تو اسکے لئے بھی حاضر ہوں۔افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا، فلسطین کی تاریخ بھری پڑی ہے انکے کارناموں سے۔
 
Top