انیس جان
محفلین
جب ہمارے جاندار شاندار جانِ غزل مطلع میں ایطا کا کہہ کر اساتذہ رد کردیتے ہیں تو ہمارے دلوں پر کیا گزرتی ہیں خیر اس سے صرف نظر کرتے ہوئے
آج میں اساتذہ کی خدمت میں چند مشہور شعرا کے مطلع پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جن شعرا نے اپنے زود بیاں اور شوخیِ گفتار کا لوہا منوایا ہے جن کے اشعار ہمارے لیے بطورِ سند ہے
میرتقی میر
موا میں سجدے میں پر نقش مرا بار رہا
اس آستاں پر مری خاک سے غبار رہا
یار عجب طرح نگہ کرگیا
دیکھنا وہ دل میں جگہ کرگیا
آئے ہیں میر منہ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
مرزا غالب
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشیدِ جمال اچھا ہے
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پئے نظرِ کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
بہ خوں غلطیدہِ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
مومن خان مومن
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
داغ دہلوی
جب وہ ناداں عدو کے گھر میں پڑا
داغ اک داغ کے جگر میں پڑا
اب دل ہے مقام بیکسی کا
یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا
تم لبھاتے ہو بار بار کسے
ایسی باتوں کا اعتبار کسے
خوب خوش باش گزر اہلِ صفا کرتے ہیں
نہ خفا ہوتے ہیں ایسے نہ خفا کرتے ہیں
دیکھ کر وہ عارضِ رنگیں ہے یوں دل باغ باغ
جیسے ہو نظّارہِ گل سے عنادل باغ باغ
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دلِ شیدا لے کر
نہیں پھرنے کا مری جان یہ سودا لے کر
خلوت میں جب کسی کو نہ پایا ادھر ادھر
گھبرا کے دیکھتے تھے وہ کیا ادھر ادھر
ادھر کی سدھ بھی ذرا لے پیام بر لینا
خدا کے واسطے جلدی میری خبر لینا
علامہ اقبال
یوں ہاتھ نہیں آتا ہو گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمّتِ مر دانہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہے اس کی یہ گلستاں ہمارا
الف عین
محمد یعقوب آسی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد ریحان قریشی
دائم
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی
آج میں اساتذہ کی خدمت میں چند مشہور شعرا کے مطلع پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جن شعرا نے اپنے زود بیاں اور شوخیِ گفتار کا لوہا منوایا ہے جن کے اشعار ہمارے لیے بطورِ سند ہے
میرتقی میر
موا میں سجدے میں پر نقش مرا بار رہا
اس آستاں پر مری خاک سے غبار رہا
یار عجب طرح نگہ کرگیا
دیکھنا وہ دل میں جگہ کرگیا
آئے ہیں میر منہ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اس بے وفا سے آج
مرزا غالب
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشیدِ جمال اچھا ہے
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
پئے نظرِ کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
بہ خوں غلطیدہِ صد رنگ دعویٰ پارسائی کا
مومن خان مومن
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بیکسی سے ہم
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
اے شبِ ہجر تیرا کالا منہ
داغ دہلوی
جب وہ ناداں عدو کے گھر میں پڑا
داغ اک داغ کے جگر میں پڑا
اب دل ہے مقام بیکسی کا
یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا
تم لبھاتے ہو بار بار کسے
ایسی باتوں کا اعتبار کسے
خوب خوش باش گزر اہلِ صفا کرتے ہیں
نہ خفا ہوتے ہیں ایسے نہ خفا کرتے ہیں
دیکھ کر وہ عارضِ رنگیں ہے یوں دل باغ باغ
جیسے ہو نظّارہِ گل سے عنادل باغ باغ
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دلِ شیدا لے کر
نہیں پھرنے کا مری جان یہ سودا لے کر
خلوت میں جب کسی کو نہ پایا ادھر ادھر
گھبرا کے دیکھتے تھے وہ کیا ادھر ادھر
ادھر کی سدھ بھی ذرا لے پیام بر لینا
خدا کے واسطے جلدی میری خبر لینا
علامہ اقبال
یوں ہاتھ نہیں آتا ہو گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمّتِ مر دانہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہے اس کی یہ گلستاں ہمارا
الف عین
محمد یعقوب آسی
محمد خلیل الرحمٰن
محمد ریحان قریشی
دائم
یاسر شاہ
محمد تابش صدیقی