صبیح الدین شعیبی
محفلین
مصرع طرح : یہ زمین و آسماں کی بات ہے
یاران محفل!
آداب،
ایک غزل ہے،،کچھ الجھ سا گیا ہوں،،کافی سارے اشعار یکے بعد دیگرے گویا برس پڑے ہیں کہیں سے،،اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کسے غزل میں شامل رکھوں کسے نہ کروں،،،اسی بحر اور زمین میں کچھ نعتیہ اشعار بھی ہوئے ہیں،،وہ بعد میں پیش کروں گا،،،فی الحال ان اشعار کی اصلاح کیجیے،،،
یہ زمین و آسماں کی بات ہے
اِس جہاں سے اُس جہاں کی بات ہے
اک بکھرتے آشیاں کی بات ہے
اک شکستہ سائباں کی بات ہے
میرے ماتھے کے نشاں کی بات ہے
ان کے سنگِ آستاں کی بات ہے
پھرکسی دردنہاں کا ذکر ہے
پھر کسی سوزنہاں کی بات ہے
دردوغم کے قافلے کا ذکرہے
اشک کی موجِ رواں کی بات ہے
روح کا رشتہ ہے یہ تیرا مرا
یہ بھلا کب جسم و جاں کی بات ہے
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی آتش فشاں کی بات ہے
گھرکبھی مشہورتھا دنیا میں یہ
ہاں !اِسی کھنڈر مکاں کی بات ہے
جوغزل کہتاہوں میں کیا ہے بھلا
تیرےمیرے درمیان کی بات ہے
لوگ جو کہتےہیں تم کو بے وفا
تم بتاؤ یہ کہاں کی بات ہے
زخم بھرکرپھر ہرے کیسے
بس کفِ چارہ گراں کی بات ہے
سچ وہی ہے جوابھی میں نے کہا
باقی زیب داستاں کی بات ہے
آپ کا،،
صبیح الدین شعیبی
یاران محفل!
آداب،
ایک غزل ہے،،کچھ الجھ سا گیا ہوں،،کافی سارے اشعار یکے بعد دیگرے گویا برس پڑے ہیں کہیں سے،،اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کسے غزل میں شامل رکھوں کسے نہ کروں،،،اسی بحر اور زمین میں کچھ نعتیہ اشعار بھی ہوئے ہیں،،وہ بعد میں پیش کروں گا،،،فی الحال ان اشعار کی اصلاح کیجیے،،،
یہ زمین و آسماں کی بات ہے
اِس جہاں سے اُس جہاں کی بات ہے
اک بکھرتے آشیاں کی بات ہے
اک شکستہ سائباں کی بات ہے
میرے ماتھے کے نشاں کی بات ہے
ان کے سنگِ آستاں کی بات ہے
پھرکسی دردنہاں کا ذکر ہے
پھر کسی سوزنہاں کی بات ہے
دردوغم کے قافلے کا ذکرہے
اشک کی موجِ رواں کی بات ہے
روح کا رشتہ ہے یہ تیرا مرا
یہ بھلا کب جسم و جاں کی بات ہے
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی آتش فشاں کی بات ہے
گھرکبھی مشہورتھا دنیا میں یہ
ہاں !اِسی کھنڈر مکاں کی بات ہے
جوغزل کہتاہوں میں کیا ہے بھلا
تیرےمیرے درمیان کی بات ہے
لوگ جو کہتےہیں تم کو بے وفا
تم بتاؤ یہ کہاں کی بات ہے
زخم بھرکرپھر ہرے کیسے
بس کفِ چارہ گراں کی بات ہے
سچ وہی ہے جوابھی میں نے کہا
باقی زیب داستاں کی بات ہے
آپ کا،،
صبیح الدین شعیبی