برائے اصلاح،،،یہ زمین و آسماں کی بات ہے

مصرع طرح : یہ زمین و آسماں کی بات ہے

یاران محفل!

آداب،
ایک غزل ہے،،کچھ الجھ سا گیا ہوں،،کافی سارے اشعار یکے بعد دیگرے گویا برس پڑے ہیں کہیں سے،،اور کچھ سمجھ نہیں آرہا کسے غزل میں شامل رکھوں کسے نہ کروں،،،اسی بحر اور زمین میں کچھ نعتیہ اشعار بھی ہوئے ہیں،،وہ بعد میں پیش کروں گا،،،فی الحال ان اشعار کی اصلاح کیجیے،،،


یہ زمین و آسماں کی بات ہے
اِس جہاں سے اُس جہاں کی بات ہے

اک بکھرتے آشیاں کی بات ہے
اک شکستہ سائباں کی بات ہے

میرے ماتھے کے نشاں کی بات ہے
ان کے سنگِ آستاں کی بات ہے

پھرکسی دردنہاں کا ذکر ہے
پھر کسی سوزنہاں کی بات ہے

دردوغم کے قافلے کا ذکرہے
اشک کی موجِ رواں کی بات ہے

روح کا رشتہ ہے یہ تیرا مرا
یہ بھلا کب جسم و جاں کی بات ہے


پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی آتش فشاں کی بات ہے

گھرکبھی مشہورتھا دنیا میں یہ
ہاں !اِسی کھنڈر مکاں کی بات ہے

جوغزل کہتاہوں میں کیا ہے بھلا
تیرےمیرے درمیان کی بات ہے

لوگ جو کہتےہیں تم کو بے وفا
تم بتاؤ یہ کہاں کی بات ہے

زخم بھرکرپھر ہرے کیسے
بس کفِ چارہ گراں کی بات ہے



سچ وہی ہے جوابھی میں نے کہا
باقی زیب داستاں کی بات ہے




آپ کا،،
صبیح الدین شعیبی
 

الف عین

لائبریرین
واہ صبیح میاں۔۔۔ کیا آمد ہے۔۔
اشعار یوں تو سارے ہی درست ہیں، لیکن اگر انتخاب کرنا ہو تو تعاون کر سکتا ہوں۔
میری نظر میں جو کمزور اشعار ہیں جن کو نکالا جا سکتا ہے، (یا کسی کو چندے میں دیا جا سکتا ہے!!) وہ یہ ہیں:

یہ زمین و آسماں کی بات ہے
اِس جہاں سے اُس جہاں کی بات ہے

اور یہ:
گھرکبھی مشہورتھا دنیا میں یہ
ہاں !اِسی کھنڈر مکاں کی بات ہے

جوغزل کہتاہوں میں کیا ہے بھلا
تیرےمیرے درمیان کی بات ہے

لوگ جو کہتےہیں تم کو بے وفا
تم بتاؤ یہ کہاں کی بات ہے

ان دونوں اشعار میں پہلے مصرعے کی بھی یکسانیت ہے، یعنی ذکر لفظ۔ ایک شعر کو بدلا جا سکتا ہے:
جیسے
دکھ کے موتی گوندھنے کا عزم ہے
اشک کی موجِ رواں کی بات ہے
یا
سن رہے ہیں آپ بیتی درد کی
یا اس قسم کے دوسرے مصرعے سوچیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے جناب صبیح الدین صاحب۔

واہ صبیح الدین صاحب واہ واہ
یہ غزل آہ و فغاں کی بات ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
شعیبی صاحب بہت خوب غزل ہے داد قبول ہو،
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی آتش فشاں کی بات ہے

یہ مصرع اگر یوں ہو تا تو کیسا رہتا،
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی اک گل فشاں کی بات ہے

پھول جھڑنے سے آتش فشاں کی بات کچھ بنتی نہیں،
اعجاز صاحب اور وارث بھائی توجہ دیجیئے گا۔
 
تو پھر ہم کچھ نہیں کہہ سکتے:)

دراصل اس شعر میں میرا خیال اسی طرف تھا جہاں اعجاز صاحب نے اشارہ کیا،،لیکن لگتا ہے مفہوم واضح نہیں اور ابہام ہورہا ہے،،
اعجاز صاحب!!
آپ بتائیے کیا شعر کے ساتھ کوئی جراحی کی جائے یا اسے بھی فہرست سے نکال پھینکوں؟؟؟
 

الف عین

لائبریرین
صبیح، نکال ہی دو وہ شعر تو بہتر ہے۔ کوئی اتنا خاص بھی نہیں ہے جو اس میں مزید وقت کھپاؤ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شعیبی صاحب بہت خوب غزل ہے داد قبول ہو،
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی آتش فشاں کی بات ہے

یہ مصرع اگر یوں ہو تا تو کیسا رہتا،
پھول جھڑتے ہیں کبھی بولے اگر
ہاں! اُسی اک گل فشاں کی بات ہے

پھول جھڑنے سے آتش فشاں کی بات کچھ بنتی نہیں،
اعجاز صاحب اور وارث بھائی توجہ دیجیئے گا۔

بہت اچھے راجا صاحب بہت اچھی نشاندہی کی آپ نے - جس کے منہہ سے پھول جھڑیں وہ گل فشاں ہی ہو سکتا ہے آتش فشاں نہیں - اور اس شعر میں یہ ایک غیر منطقی ربط ہے -
 
Top