برائے اصلاح۔ شکوہ ہے مرے لب پہ جو اک تیرہ شبی کا

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ

شکوہ ہے مرے لب پہ جو اک تیرہ شبی کا
ہے دہر میں باعث وہ مری کم لقبی کا

پانی کو ترستا ہو جوں گم گشتہِ صحرا
یوں تجھ سے تعلق ہے مری تشنہ لبی کا

پھر میرا جفا جُو لگا مَلنے کفِ افسوس
دیکھا جو نظارہ سا مری جاں بلبی کا

ہائے جو محبت کی زباں سے نہیں واقف
لاحق یہ مجھے عشق ہوا کیسے غبی کا

تو جو نہ میسر ہو اجالوں میں تو اے دوست
ٹوٹے نہ کبھی زور مری تیرہ شبی کا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
باقی اشعار تو درست ہیں، بس مطلع کی کم لقبی سمجھ میں نہیں آئی
یعنی کہ میں جو تیرہ شبی کا رونا روتا رہتا ہوں یہ دنیا میں میری کم لقبی(بدنامی، رسوائی) کا باعث بن گیا ہے۔
اگر شعر اپنا مطلب واضح نہیں کر رہا تو پھر کسی اور طور پر سوچنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 
Top