برائے اصلاح۔ مری وحشتوں کا کمال ہے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں
نوٹ:۱- یہ غزل کہنے کے بعد میں نے انٹرنیٹ پر چیک کیا تو معلوم ہو محترمہ فرح خان کی ایک غزل اسی زمین میں پہلے سے موجود ہے۔ تو سمجھئے میری غزل ان کی غزل کی زمین میں ہے ۔ شُکریہ
۲- مقطع میں ، نام کا دوسرا حصہ ( حسین: اس کا مطلب حضرت امام حسین نہیں ہے) استعمال کیا ہے کیونکہ اس بحر میں میرا پہلا نام نہیں آ سکتا۔

تری شہرتیں ہیں عروج پر،مری وحشتوں کا کمال ہے
ترے حسن کا ہے یہ مُعجزہ تو فقط یہ تیراخیال ہے

یہاں بولنا تو کجا، یہاں پہ تو سوچنا بھی محال ہے
وُہ اکھاڑ دیں گے نظام کیا ،ہراک آنکھ میں یہ سوال ہے

میں ہوں دےرہا مرے دِلرُبا ترے دل پہ دستکیں باربار
کوئی اور ہے نہ یوں چاہتا کسی اور کی نہ مجال ہے

وہ ملا تو مجھ سےضرور ہے،نہیں بات کی کوئی بھی مگر
میں نہیں مریض فراق کا، مرا درد، دردِ وصال ہے

کئی سال سےمرے شہرنے ہے جنانہیں کوئی بھی ادیب
مرا شہر ہے بڑا بدنصیب یہ شہر روبہ زوال ہے

یہاں پیٹ کے ہیں معاملے یہاں عشق کے بھی ہیں سلسلے
یہ تو اے خدا، مجھے تُو بتا، یہ ہے زندگی کہ وبال ہے

میں کہاں پہ جا کے کٹاؤں پرچہ ، بنے گا میرا گواہ کون
وہ ہے کوتوال بھی شہر کا، وہ جوشخص وجہ قتال ہے

کئی مفتیان کرام نے یہ کہاہے عشق کے باب میں
میں کروں توعشق حرام ہے وُہ کریں اگرتو حلال ہے

تُوجوکہہ رہا ہےکہ تُو نے بھی سہے ہیں ستم مرے پیار میں
مراانگ انگ ہےخوں سے تر، ترے پاس کوئی مثال ہے

یہ تو لگ رہا ہے کہ جی رہے ہیں حسین دورِ یزید میں
کہ چناب میں بھی رہا نہ آب ،مُحبتوں کا بھی کال ہے
 

الف عین

لائبریرین
میرا مشورہ ہے کہ پوری غزل روائز کریں، ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کہ
یہ منقسم بحر ہے، ہر نصف میں بات مکمل ہو، لفظ یا کلمہ ٹوٹ نہ جائے
لسی لفظ کی اختتامی ے گرائی نہ جائے بطور خاص فارسی عربی الفاظ میں، ہندی اردو میں بھی 'سہی' کی ے کا اسقاط قابل قبول نہیں لگ رہا
کسی مصرع کی روانی اس کی نثر سے قریب ترین شکل ہوتی ہے۔ وزن پورا کرنے کے لیے انہیں الفاظ کی بجائے الفاظ تبدیل کر جے بھی کوشش کریں۔ جیسے 'اک انکھ' پسند نہیں آیا،
ہراک آنکھ میں یہ سوال ہے
کو
یہ ہر اک نظر میں...
بھی کیا جا سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ
 

مقبول

محفلین
میرا مشورہ ہے کہ پوری غزل روائز کریں، ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے کہ
یہ منقسم بحر ہے، ہر نصف میں بات مکمل ہو، لفظ یا کلمہ ٹوٹ نہ جائے
لسی لفظ کی اختتامی ے گرائی نہ جائے بطور خاص فارسی عربی الفاظ میں، ہندی اردو میں بھی 'سہی' کی ے کا اسقاط قابل قبول نہیں لگ رہا
کسی مصرع کی روانی اس کی نثر سے قریب ترین شکل ہوتی ہے۔ وزن پورا کرنے کے لیے انہیں الفاظ کی بجائے الفاظ تبدیل کر جے بھی کوشش کریں۔ جیسے 'اک انکھ' پسند نہیں آیا،
ہراک آنکھ میں یہ سوال ہے
کو
یہ ہر اک نظر میں...
بھی کیا جا سکتا ہے، وغیرہ وغیرہ

محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ
میں نے چیک کیا ہے ۔ تین چار مصرعوں میں الفاظ ٹوٹ گئے ہیں۔ ان کو درست کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ہے کہ کلمہ بھی نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ کیا اس مراد ہے کہ دونوں ہاف میں اپنے اپنے فقرے بھی مکمل ہونے چاہیئیں؟

ترے، مرے، کوئی، کہیں، نہیں کبھی،کسی کو تو “فع” کے طور پر لیا جا سکتا ہے یعنی ے، ی، یں وغیرہ گرائے جا سکتے ہیں؟

کیا یہاں، وہاں میں بھی الف گرانا جائز ہے؟

کیا دستکیں میں ُ”یں” گرایا جا سکتا ہے؟

روانی کو بھی دیکھتا ہوں

عروض ڈاٹ کام پر Frances W Pritchett کی جو اردو میٹر لسٹ دی ہوئی ہے اس میں اس بحر کو مقطع بحر کے طور پر ظاہر نہیں کیا گیا ۔ کیا مقطع اور منقسم بحور مختلف ہوتی ہیں؟ اور کیا دونوں پر ایک طرح کی پابندیاں لاگو ہوتی ہیں مثلاً ہر نصف میں بات مکمل ہونا، کلمہ اور الفاظ کا نہ ٹوٹنا۔

براہ مہربانی رہنمائی فرمائیے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اکثر حروف کا اسقاط جو اگرچہ جائز ہے، لیکن بحر اور اس میں ان الفاظ کی نشست میں روانی کو متاثر کرتا ہے، کوئی کلیہ کم از کم میرے لئے بتانا ممکن نہیں کہ میں عروض سے نا بلد ہوں۔ میں عملی طور پر یہ بتا سکتا ہوں کہ کہاں غلط لگ رہا ہے، اور کہاں درست ہونے پر بھی روانی متاثر کر رہا ہے( اس صورت میں اکثر میرے الفاظ ہوتے ہیں کہ 'اچھا نہیں' کچھ الفاظ اسقاط کے ساتھ زیادہ رواں ہوتے ہیں جیسے ' تو' اور 'جو' جا طویل کھنچنا روانی جو متاثر کرتا ہے۔
دستکیں کی ے گرانا غلط ہے
یہاں وہاں وعیرہ کا الف بھی کہیں کہیں گرایا جا سکتا ہے، لیکن اگر الفاظ بدل کر پورے پورے الفاظ لائے جائیں تو بہتر ہی یو گا
بات مکمل ہو ہر نصف حصے میں، میں تو یہی پسند کرتا ہوں ۔
جی رہے ہیں' میں' ہیں' دوسرے ٹکڑے میں آنے سے روانی پر خود ہی غور کرو تمہارے مقطع میں
 

مقبول

محفلین
اکثر حروف کا اسقاط جو اگرچہ جائز ہے، لیکن بحر اور اس میں ان الفاظ کی نشست میں روانی کو متاثر کرتا ہے، کوئی کلیہ کم از کم میرے لئے بتانا ممکن نہیں کہ میں عروض سے نا بلد ہوں۔ میں عملی طور پر یہ بتا سکتا ہوں کہ کہاں غلط لگ رہا ہے، اور کہاں درست ہونے پر بھی روانی متاثر کر رہا ہے( اس صورت میں اکثر میرے الفاظ ہوتے ہیں کہ 'اچھا نہیں' کچھ الفاظ اسقاط کے ساتھ زیادہ رواں ہوتے ہیں جیسے ' تو' اور 'جو' جا طویل کھنچنا روانی جو متاثر کرتا ہے۔
دستکیں کی ے گرانا غلط ہے
یہاں وہاں وعیرہ کا الف بھی کہیں کہیں گرایا جا سکتا ہے، لیکن اگر الفاظ بدل کر پورے پورے الفاظ لائے جائیں تو بہتر ہی یو گا
بات مکمل ہو ہر نصف حصے میں، میں تو یہی پسند کرتا ہوں ۔
جی رہے ہیں' میں' ہیں' دوسرے ٹکڑے میں آنے سے روانی پر خود ہی غور کرو تمہارے مقطع میں
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شکریہ
میں کوشش کروں گا کہ آپ کی ترجیحات کے مطابق تبدیلیاں لا سکوں۔ جیسے ہی کچھ بن پایا دوبارہ خدمت میں حاضر ہوں گا
 
ترے، مرے، کوئی، کہیں، نہیں کبھی،کسی کو تو “فع” کے طور پر لیا جا سکتا ہے یعنی ے، ی، یں وغیرہ گرائے جا سکتے ہیں؟
ترے اور مرے میں ے اسقاط میرے خیال میں درست نہیں کیونکہ یہ پہلے ہی تیرے اور میرے کے مخفف ہیں، یعنی ایک حرف علت تو پہلے ساقط ہوچکا ہوتا ہے، اگر بڑی ے بھی گرا دیں گے تو ’’تر‘‘ اور ’’مر‘‘ ہی بچیں گے!
’’کسی‘‘ کی ی کا اسقاط اگرچہ جائز ہے، تاہم اگر لفظ کی نشست مناسب نہ ہو تو روانی میں خلل کے سبب بہت کھلتا ہے۔ یہی معاملہ کہیں اور نہیں وغیرہ کا بھی سمجھ لیں۔
کوئی کی واؤ کے اسقاط کے جواز سے میں واقف ہوں، یعنی ’’کُ+ئی‘‘ اکثر تقطیع ہوتے دیکھا ہے ۔۔۔ تاہم ی کا اسقاط یاد نہیں کہ کبھی دیکھا ہو۔

کیا یہاں، وہاں میں بھی الف گرانا جائز ہے؟
جواز کا فتوی شاید موجود ہو، مگر ایسا کرنا شاذ ہی مناسب لگتا ہے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ لفظ کے درمیان سے حرف علت گرانا عموماً ناجائز ہی کہا جاتا ہے۔
 

مقبول

محفلین
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
ترے اور مرے میں ے اسقاط میرے خیال میں درست نہیں کیونکہ یہ پہلے ہی تیرے اور میرے کے مخفف ہیں، یعنی ایک حرف علت تو پہلے ساقط ہوچکا ہوتا ہے، اگر بڑی ے بھی گرا دیں گے تو ’’تر‘‘ اور ’’مر‘‘ ہی بچیں گے!
’’کسی‘‘ کی ی کا اسقاط اگرچہ جائز ہے، تاہم اگر لفظ کی نشست مناسب نہ ہو تو روانی میں خلل کے سبب بہت کھلتا ہے۔ یہی معاملہ کہیں اور نہیں وغیرہ کا بھی سمجھ لیں۔
کوئی کی واؤ کے اسقاط کے جواز سے میں واقف ہوں، یعنی ’’کُ+ئی‘‘ اکثر تقطیع ہوتے دیکھا ہے ۔۔۔ تاہم ی کا اسقاط یاد نہیں کہ کبھی دیکھا ہو
جی، ideally تو ایسے ہی ہونا چاہیئے ۔ میں نے اس سلسلے میں مختلف بڑے شعرا کا اس بحر کےُتحت لکھا کلام چیک کیا تو صرف فیض صاحب کی شاید دو غزلیں ہیں جن میں ی یا ے کا اسقاط نہیں ہے باقی سب کے کلام میں (مع علامہ اقبالُ، حفیظ ہشیار پوری ۔۔۔) ی یا ے کو گرایا گیا ہے بشمول مرے، ترے۔ مجھے لگتا ہے ایک مصرع میں چار بار دو متواتر ہجائے کوتاہ آنے کے وجہ سے شاعر کے پاس بہت آپشنز نہیں رہ جاتے
جواز کا فتوی شاید موجود ہو، مگر ایسا کرنا شاذ ہی مناسب لگتا ہے۔ ایک بات یاد رکھیں کہ لفظ کے درمیان سے حرف علت گرانا عموماً ناجائز ہی کہا جاتا ہے۔
جی، بہتر۔
یہاں اور وہاں میں نون غنہ تو شمار نہیں ہو گا۔ پھر بھی الف کو درمیان کا حرفِ علت سمجھا جائے گا؟

اردو محفل میں ایک دھاگہ موجود ہے جس کا لنک یہ ہے
اصولِ شاعری کے حوالے سے چند سوال۔۔۔؟

اس میں فرمایا گیا ہے کہ بحر کامل کے کسی متفاعلن کو مستفعلن میں میں بدلا جا سکتا ہے (سب کو نہیں) ۔ آپ اور استادِ محترم الف عین صاحب اس پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ شُکریہ
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
اس میں فرمایا گیا ہے کہ بحر کامل کے کسی متفاعلن کو مستفعلن میں میں بدلا جا سکتا ہے (سب کو نہیں) ۔ آپ اور استادِ محترم الف عین صاحب اس پر کیا رائے رکھتے ہیں؟ شُکریہ
وارثؔ صاحب عروض کے ماہر ہیں، بلکہ اس محفل میں عروضی معاملات پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے پاس اگر ان کے علم کا عشر عشیر بھی ہوتا تو میں خود کو نہایت خوش قسمت تصور کرتا۔
اگر انہوں نے یہ اصول بیان کیا ہے تو درست ہی کہا ہوگا، ان کی بات تسلیم کرنے کے سوا میرے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں۔
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

کچھ بہتری کی کوشش کی ہے ۔ فقروں کو نصف بحر میں مکمل کرنے والا کام تو تقریباً ہو گیا ہے۔ “ے” نہ گرانے والا کام کافی حد تک ہو سکاُلیکن سو فیصد نہیں ۔ روانی کا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اب دیکھیے

تو ہے شہرتوں کے عروج پر یہ مرے جنوں کا کمال ہے
یہ ہے تیرےحسن کا مُعجزہ تو فقط یہ تیرا خیال ہے

جو زباں بھی کاٹ کے لے گئے جو ہیں قفل مُنہ پہ لگا گئے
وُہ نکال دیں گے کیا آنکھ بھی ، یہ ہر اک نظر میں سوال ہے
یا
وُہ لپیٹ دیں گے نظام کیا ، یہ ہر اک نظر میں سوال ہے

یہ “نہیں” تری نے گرا دیا مجھے آسماں سے زمین پر
کسی اور کا نہ تھا حوصلہ کسی اور کی نہ مجال ہے

وہ ملا تو مجھ سے ضرور ہے نہیں بات میری سُنی مگر
نہ دوا دو مجھ کو فراق کی، یہ تو درد، دردِ وصال ہے

میں نکل گیا جو مُعاش سے تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں امتحاں میں جگہ جگہ یہ ہے زندگی کہ وبال ہے

نہ ہی دشمنوں کی صفوں میں ہے نہ ہی قاتلوں کی قطار میں
وہ جو شخص سب کو عزیز ہے وہی شخص وجہ قتال ہے

کئی مفتیان کرام نے یہ کہا ہے عشق کے باب میں
میں کروں تو عشق حرام ہے وُہ کریں اگر تو حلال ہے

نہ ادب میں کوئی مقام ہے نہ ہی نام ہے کسی کھیل میں
یہ علامتیں ہیں بتا رہیں کہ یہ شہر روبہ زوال ہے

تُو جو کہہ رہا ہے کہ تُو نے بھی ہیں ستم سہے مرے پیار میں
مرا انگ انگ ہے خوں سے تر، ترے پاس کوئی مثال ہے

یہ تو لگ رہا ہے کہ زندہ ہوں میں حسین دورِ یزید میں
نہ منافقت پہ حجاب ہے نہ ہی ظلمتوں پہ ملال ہے

سر، الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل:
دوبارہ ٹیگ کر رہا ہوں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
تو ہے شہرتوں کے عروج پر یہ مرے جنوں کا کمال ہے
یہ ہے تیرےحسن کا مُعجزہ تو فقط یہ تیرا خیال ہے
... دوسرے مصرعے میں 'تو' واضح نہیں ہوا،

جو زباں بھی کاٹ کے لے گئے جو ہیں قفل مُنہ پہ لگا گئے
وُہ نکال دیں گے کیا آنکھ بھی ، یہ ہر اک نظر میں سوال ہے
یا
وُہ لپیٹ دیں گے نظام کیا ، یہ ہر اک نظر میں سوال ہے
... زبان کاٹنا اور منہ پر قفل لگانا تو ایک جیسی ہی بات ہے، دونوں ایک ساتھ لانا درست نہیں لگتا۔ دوسرے مصرعے کا دوسرا متبادل تو بے ربط لگتا ہے، پہلے متبادل میں 'کیا' صرف 'کَ' تقطیع ہو رہا ہے ۔ اس کی جگہ 'اب' بہتر ہو گا۔

یہ “نہیں” تری نے گرا دیا مجھے آسماں سے زمین پر
کسی اور کا نہ تھا حوصلہ کسی اور کی نہ مجال ہے
.. یہ تری 'نہیں'.... کہنے میں کچھ حرج تھا؟ دوسرے مصرعے میں 'نہ' اچھا نہیں۔۔ یہ مصرعہ
نہ کسی کا ایسا تھا حوصلہ نہ کسی کی ایسی مجال ہے
ہو سکتا ہے،
روانی تو درست ہو گئی لیکن دونوں مصرعوں میں ربط؟

وہ ملا تو مجھ سے ضرور ہے نہیں بات میری سُنی مگر
نہ دوا دو مجھ کو فراق کی، یہ تو درد، دردِ وصال ہے
... یہ بھی دو لخت لگ رہا ہے

میں نکل گیا جو مُعاش سے تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں امتحاں میں جگہ جگہ یہ ہے زندگی کہ وبال ہے
.. یہ میں امتحاں میں ہوں ہر جگہ،....
بہتر ہو گا

نہ ہی دشمنوں کی صفوں میں ہے نہ ہی قاتلوں کی قطار میں
وہ جو شخص سب کو عزیز ہے وہی شخص وجہ قتال ہے
.. نہ ہی؟ عجیب لگتا ہے، نہ وہ کہو دونوں جگہ. باقی شاید چل جائے گا

کئی مفتیان کرام نے یہ کہا ہے عشق کے باب میں
میں کروں تو عشق حرام ہے وُہ کریں اگر تو حلال ہے
.. درست

نہ ادب میں کوئی مقام ہے نہ ہی نام ہے کسی کھیل میں
یہ علامتیں ہیں بتا رہیں کہ یہ شہر روبہ زوال ہے
... شہر کا ادب میں مقام اور کھیل میں نام عقل سے بعید ہے
دوسرا مصرع بھی
یہ بتا رہی ہیں علامتیں..
یا
ہیں علامتیں جو بتا رہی ہیں، یہ شہر رو. .

تُو جو کہہ رہا ہے کہ تُو نے بھی ہیں ستم سہے مرے پیار میں
مرا انگ انگ ہے خوں سے تر، ترے پاس کوئی مثال ہے
... یہ بھی واضح نہیں

یہ تو لگ رہا ہے کہ زندہ ہوں میں حسین دورِ یزید میں
نہ منافقت پہ حجاب ہے نہ ہی ظلمتوں پہ ملال ہے
.. ایضاً
روانی کے ضمن میں اب بھی یہی کہوں گا کہ ہر ممکن صورت پر غور کیا کریں، یہ نہیں کہ جو پہلی ہی بار ذہن میں آ جاۂے، اسے ہی فائنل کر دیا جائے۔
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، کچھ تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہے

وُہ ہے شہرتوں کے عروج پر ،یہ مرے جنوں کا کمال ہے
یہ ہے وحشتوں کا ثمر مری کہ وُہ شاعروں کا خیال ہے

وُہ حسین ایسا ہے بے مثل کہ مقابلہ بھی کرے تو کون
نہ ہے شخص کوئی زمین پر، نہ ہی مہر و مہ کی مجال ہے

وُہ ملا تو مجھ سے ضرور ہے ،نہیں بات میری سُنی مگر
یہ ہیں کس طرح کی محبتیں، یہ کہاں کا طرزِ وصال ہے

جو قلم بھی چھین کے لے گئے، جو ہیں قفل مُنہ پہ لگا گئے
وُہ نکال دیں گے اب آنکھ بھی ، یہ ہراک نظر میں سوال ہے

میں نکل گیا جو مُعاش سے، تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں مشکلات میں ہر جگہ یہ ہے زندگی کہ وبال ہے

کئی مفتیان کرام نے، یہ کہا ہے عشق کے باب میں
میں کروں تو عشق حرام ہے، وُہ کریں اگر تو حلال ہے

نہ قبول جن کی نماز ہو ، وُہ ہیں مسجدوں کے امام یاں
یہ بتا رہی ہیں علامتیں کہ یہ شہر روبہ زوال ہے

یہ تو لگ رہا ہے کہ زندہ ہوں، میں حسین دورِ یزید میں
نہ کسی کو خوفِ خدا یہاں، نہ ہی بے حسی پہ ملال ہے
 

الف عین

لائبریرین
وُہ ہے شہرتوں کے عروج پر ،یہ مرے جنوں کا کمال ہے
یہ ہے وحشتوں کا ثمر مری کہ وُہ شاعروں کا خیال ہے
... جس طرح سمجھا ہوں، اس کے مطابق یوں بہتر ہو گا
مری وحشتوں کا ثمر ہے یہ، تو وہ.....

وُہ حسین ایسا ہے بے مثل کہ مقابلہ بھی کرے تو کون
نہ ہے شخص کوئی زمین پر، نہ ہی مہر و مہ کی مجال ہے
... مثل کی ث ساکن ہوتی ہے، الفاظ بدل دو

وُہ ملا تو مجھ سے ضرور ہے ،نہیں بات میری سُنی مگر
یہ ہیں کس طرح کی محبتیں، یہ کہاں کا طرزِ وصال ہے
.. ٹھیک ہے

جو قلم بھی چھین کے لے گئے، جو ہیں قفل مُنہ پہ لگا گئے
وُہ نکال دیں گے اب آنکھ بھی ، یہ ہراک نظر میں سوال ہے
.. درست

میں نکل گیا جو مُعاش سے، تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں مشکلات میں ہر جگہ یہ ہے زندگی کہ وبال ہے
... اب لگ رہا ہے کہ محض معاش سے نکلنا بھی واضح نہیں، معاش کے جال یا پھندے وغیرہ کہنے کی ضرورت ہے

کئی مفتیان کرام نے، یہ کہا ہے عشق کے باب میں
میں کروں تو عشق حرام ہے، وُہ کریں اگر تو حلال ہے
.. درست

نہ قبول جن کی نماز ہو ، وُہ ہیں مسجدوں کے امام یاں
یہ بتا رہی ہیں علامتیں کہ یہ شہر روبہ زوال ہے
... وہی مسجدوں کے امام ہیں
زیادہ رواں نہیں؟

یہ تو لگ رہا ہے کہ زندہ ہوں، میں حسین دورِ یزید میں
نہ کسی کو خوفِ خدا یہاں، نہ ہی بے حسی پہ ملال ہے
.. اب تو یہ اور دو لخت لگنے لگا ہے
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، کچھ اور اکھاڑ پچھاڑ، کچھ upside down اور کچھ اور تبدیلیاں کی ہیں ۔ اب دیکھیے

نہ کسی کوخوفِ خدا یہاں، نہ ہی بے حسی پہ ملال ہے
یہ بتا رہی ہیں علامتیں کہ یہ شہر روبہ زوال ہے

جوقلم بھی چھین کےلےگئے،جو ہیں قفل مُنہ پہ لگاگئے
وُہ نکال دینگے اب آنکھ بھی،یہ ہراک نظر میں سوال ہے

میں نکل گیاغمِ رزق سے، تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں مشکلات میں ہرجگہ، یہ ہے زندگی کہ وبال ہے

نہ قبول جن کی نماز ہو، وُہی مسجدوں کے امام ہیں
یہ خدا پہ کیسا یقین ہے یہ عجیب صورتِ حال ہے

کئی مفتیان کرام نے، یہ کہاہے عشق کے باب میں
میں کروں توعشق حرام ہے، وُہ کریں اگر توحلال ہے

تُوحسین اتنا بلا کا ہے کہ مقابلہ بھی کرے تو کون
نہ ہے شخص کوئی زمین پر، نہ ہی مہر و مہ کی مجال ہے

کئی لوگ ہیں تجھے چاہتے ، ہو گا مُعجزہ ترے حسن کا
تُو ہے شہرتوں کےعروج پر ،یہ مرے جنوں کا کمال ہے

تُو ملا تو مجھ سے ضرور ہے،نہیں بات میری سُنی مگر
یہ ہیں کس طرح کی محبتیں، یہ کہاں کا طرزِ وصال ہے

میں دُعاکروں گایہ مر کے بھی کہ حُسین پائے وُہ عمرِ نوح
مجھے زخم دے کے جو شاد تھا، مجھے مار کرجو نہال ہے
 

الف عین

لائبریرین
اب ماشاء اللہ کافی روانی آ گئی ہے غزل میں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اردو تلفظات درست ہیں اور بحر و اوزان سے مناسب واقفیت ہے تو اصلاح کی ضرورت کسی کو نہیں ہو گی، بس ایسے شعراء اپنے کلام کو 'کاتا اور لے دوڑی' نہ کریں۔ کچھ وقت گزاریں اپنی غزل کے ساتھ اور مصرع کے ہر ممکن متبادل پر غور کرتے رہیں تو خود ہی محسوس ہو گا کہ روانی کس طرح بہتر کی جا سکتی ہے۔
اب بھی ایک شعر میں
کئی لوگ ہیں تجھے چاہتے ، ہو گا مُعجزہ ترے حسن کا
تُو ہے شہرتوں کےعروج پر ،یہ مرے جنوں کا کمال ہے
.. اس کے اولی مصرع میں 'ہو گا' محض 'ہُگا' تقطیع ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ کتنا نا گوار ہے۔ 'یہ ہے معجزہ ترے حسن کا' رواں نہیں، اور میرے خیال میں وہی مفہوم برآمد ہوتا ہے جو چاہتے ہو
 

مقبول

محفلین
اب ماشاء اللہ کافی روانی آ گئی ہے غزل میں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اردو تلفظات درست ہیں اور بحر و اوزان سے مناسب واقفیت ہے تو اصلاح کی ضرورت کسی کو نہیں ہو گی، بس ایسے شعراء اپنے کلام کو 'کاتا اور لے دوڑی' نہ کریں۔ کچھ وقت گزاریں اپنی غزل کے ساتھ اور مصرع کے ہر ممکن متبادل پر غور کرتے رہیں تو خود ہی محسوس ہو گا کہ روانی کس طرح بہتر کی جا سکتی ہے۔
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ
جو بھی بہتری آئی ہے وہ آپ کی ہدایات کی وجہ سے آئی ہے جس کے لیے ممنون ہوں
آپ کا فرمانا بجا ہے کہ مناسب علم رکھنے والے شعرا خود ہی بہتری لا سکتے ہیں مگر مجھے تو ہمیشہ آپ جیسے اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت رے گی کیونکہ اولاً، میں کچھ خاص علم نہیں رکھتا۔ ثانیاً، کہ میں کچھ بھی کر لوں اساتذہ والی نظر تو بہرحال میری نہیں ہو سکتی ۔ ثالثاً، آپ کے تبصرے سے سوچ کے اور زاویے کھلتے ہیں جو زیادہ بہتری کا سبب بنتے ہیں۔

براہ مہربانی آپ میرے ساتھ آئندہ بھی شفقت فرماتے رہیے ۔ شُکریہ
اب بھی ایک شعر میں
کئی لوگ ہیں تجھے چاہتے ، ہو گا مُعجزہ ترے حسن کا
تُو ہے شہرتوں کےعروج پر ،یہ مرے جنوں کا کمال ہے
.. اس کے اولی مصرع میں 'ہو گا' محض 'ہُگا' تقطیع ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ کتنا نا گوار ہے۔ 'یہ ہے معجزہ ترے حسن کا' رواں نہیں، اور میرے خیال میں وہی مفہوم برآمد ہوتا ہے جو چاہتے ہو
سر، پہلے میں نے “یہ ہے” ہی استعمال کیا تھا لیکن مجھے ایسا لگا کہ “یہ ہے” کہنے سے مکمل submission کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے دوسرا مصرعہ تھوڑا کمزور ہو جاتا ہے۔ اس لیے پھر “یہ ہے” کو “ہو گا “ سے بدل دیا۔
لیکن اگر “ہو گا” تقطیع کے لحاظ سے ناگوار ہے تو دوبارہ “یہ ہے” کی طرف لوٹ جاتا ہوں
 
Top