برائے اصلاح۔ معیار کی باتیں کرتے ہو

مقبول

محفلین
محترم سر الف عین
اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
سر، کیا اس بحر میں بھی تسبیغ کی اجازت ہے؟

میعار کی باتیں کرتے ہو
بیکار کی باتیں کرتے ہو

سرکار کے نافرماں ہو کر
سرکار کی باتیں کرتے ہو

تم لوگ منافق ہو کر بھی
کردار کی باتیں کرتے ہو

کھا کر مالِ یتیموں کا بھی
ایثار کی باتیں کرتے ہو

گلزار کو آگ لگا کر خود
گلزار کی باتیں کرتے ہو

اے بزدل لوگو، کس منہ سے
کرّار کی باتیں کرتے ہو

روزہ تو ایک نہیں رکھتے
افطار کی باتیں کرتے ہو

چوٹی دیکھ کے ڈر لگتا ہے
کہسار کی باتیں کرتے ہو

فن کو تم گھٹیا مانتے ہو
فنکار کی باتیں کرتے ہو

سر حاکم کے پیروں میں اور
انکار کی باتیں کرتے ہو

مے کی میم سے نا واقف ہو
یا
اک گھونٹ نہیں تمُ پی سکتے
مے خوار کی باتیں کرتے ہو

تم مارے جاؤ گے مقبول
تم پیار کی باتیں کرتے ہو
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
روزہ تو ایک نہیں رکھتے
افطار کی باتیں کرتے ہ
آپکے اس شعر سے ہمیں وہ لطیفہ یاد آگیا
پوچھا سحری کی جواب دیا نہیں
پوچھا روزہ ہے جواب دیا نہیں
افطار کرو گے
لو خوب کیوں نہ کروں گا کیا اب افطار بھی نہ کروں 😃
 

مقبول

محفلین
تم کھا کر مال یتیموں کا۔
چوٹی کو دیکھ کے ڈرتے ہو ۔

ایسے بہتر ہے۔
بہت مہربانی، عاطف صاحب
اتفاقاً پہلا مصرعہ پہلے ہی اپنے پاس ایسے کر چکا ہوں
دوسرا مصرع بھی میں نے ابتدا میں ایسے ہی کہا۔ پھر تقابل ردیفین کی وجہ سے بدلا۔ کیا تقابل ردیفین رہنے دوں؟
 

مقبول

محفلین
محترم سر الف عین
اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
سر، کیا اس بحر میں بھی تسبیغ کی اجازت ہے؟

میعار کی باتیں کرتے ہو
بیکار کی باتیں کرتے ہو

سرکار کے نافرماں ہو کر
سرکار کی باتیں کرتے ہو

تم لوگ منافق ہو کر بھی
کردار کی باتیں کرتے ہو

کھا کر مالِ یتیموں کا بھی
ایثار کی باتیں کرتے ہو

گلزار کو آگ لگا کر خود
گلزار کی باتیں کرتے ہو

اے بزدل لوگو، کس منہ سے
کرّار کی باتیں کرتے ہو

روزہ تو ایک نہیں رکھتے
افطار کی باتیں کرتے ہو

چوٹی دیکھ کے ڈر لگتا ہے
کہسار کی باتیں کرتے ہو

فن کو تم گھٹیا مانتے ہو
فنکار کی باتیں کرتے ہو

سر حاکم کے پیروں میں اور
انکار کی باتیں کرتے ہو

مے کی میم سے نا واقف ہو
یا
اک گھونٹ نہیں تمُ پی سکتے
مے خوار کی باتیں کرتے ہو

تم مارے جاؤ گے مقبول
تم پیار کی باتیں کرتے ہو
سر الف عین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دوسرا مصرع بھی میں نے ابتدا میں ایسے ہی کہا۔ پھر تقابل ردیفین کی وجہ سے بدلا۔ کیا تقابل ردیفین رہنے دوں؟
اس میں تو کو ئی حرج نہیں ۔
اور ہاں

اک گھونٹ نہیں تمُ پی سکتے
اک گھونٹ تو پی نہیں سکتے تم ۔
یہ بھی اس طرح بہتر ہو گا۔
الف عین بھائی کی رائے بھی لے لیتے ہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
محترم سر الف عین
اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
سر، کیا اس بحر میں بھی تسبیغ کی اجازت ہے؟
بھئی میں کئی بار اعتراف کر چکا ہوں کہ میں با قاعدہ عروض نہیں جانتا! اب تو وارث بھی نہیں جنہیں پکارا جائے، شاید سید عاطف علی یا یاسر شاہ یا ظہیراحمدظہیر کچھ کہہ سکیں اس بارے میں۔ یہ اگر بحر ہندی کے مختلف افاعیل کے اخلاط سے تعلق رکھتا ہے تو مجھے کچھ مختلف بحور کا اختلاط پسند نہیں، چاہے اس کی اجازت ہو۔ جیسے یہاں تم نے
مفعول مفاعیلن فعلن
میں
فعلن فعلن فعلن فعلن( ف اور ع کلمات کو متحرک یا ساکن مانتے ہوئے)
مخلوط کر دی ہیں۔ دونوں بحور میں سولہ حروف ضرور ہوتے ہیں۔ مفعول مفاعلن فعلن کو بھی
مفعو/فعلن
ل مفا/ فعلن
عیلن/ فعلن
فعلن/ فعلن
تکنیکی طور پر کیا جا سکتا ہے لیکن صاف لگتا ہے کہ یہ دونوں بحور مختلف ہیں۔
اس غزل میں بیشتر مفعول، مفاعیلن، فعلن
افاعیل استعمال کئے گئے ہیں، ان کے بیچ
کھا کر مال یتیموں کا بھی
صاف لگتا ہے کہ بحر بدل گئی ہے
میعار کی باتیں کرتے ہو
بیکار کی باتیں کرتے ہو
ٹھیک ہے، مگر ہلکا ہے۔معیار اور میعاد کو اکثر غلط املا سے لکھا جانے لگا ہے۔ نہ جانے کیوں؟ درست معیار اور میعاد ہے، میعاری اور معیاد نہیں
سرکار کے نافرماں ہو کر
سرکار کی باتیں کرتے ہو

تم لوگ منافق ہو کر بھی
کردار کی باتیں کرتے ہو
ٹھیک ہی ہیں
کھا کر مالِ یتیموں کا بھی
ایثار کی باتیں کرتے ہو
کھاتے ہو مال یتیموں کا
مفعول مفاعیلن فعلن درست ہو سکتا ہے، لیکن دونوں کے درمیان مگر/لیکن کی کمی محسوس ہوتی ہے
گلزار کو آگ لگا کر خود
گلزار کی باتیں کرتے ہو
درست
اے بزدل لوگو، کس منہ سے
کرّار کی باتیں کرتے ہو
ٹائپو ہے؟
روزہ تو ایک نہیں رکھتے
افطار کی باتیں کرتے ہو
درست
چوٹی دیکھ کے ڈر لگتا ہے
کہسار کی باتیں کرتے ہو
افاعیل کے علاوہ پہلے مصرع میں فاعل واضح نہیں ہوتا، ہم کو ڈر لگتا ہے یا تم ڈرتے ہو؟
فن کو تم گھٹیا مانتے ہو
فنکار کی باتیں کرتے ہو
تقابل ردیفین سےبچا جا سکتا ہے
سر حاکم کے پیروں میں اور
انکار کی باتیں کرتے ہو
کس کا سر، تمہارا یا ہمارا؟ واضح نہیں
مے کی میم سے نا واقف ہو
یا
اک گھونٹ نہیں تمُ پی سکتے
مے خوار کی باتیں کرتے ہو
پہلا مصرع مفہوم کے اعتبار سے بہتر ہے لیکن افاعیل اور تقابل ردیفین!
ہو نا واقف مے کی میم سے بھی
تم مارے جاؤ گے مقبول
تم پیار کی باتیں کرتے ہو
تم کو رپیٹ کرنے کی بجائے
جو پیار کی باتیں....
مجموعی طور پر غزل زبردستی کی قافیہ پیمائی لگ رہی ہے!
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
بہت شکریہ، اب دیکھیے
ھئی میں کئی بار اعتراف کر چکا ہوں کہ میں با قاعدہ عروض نہیں جانتا! اب تو @وارث بھی نہیں جنہیں پکارا جائے، شاید @سید عاطف علی یا @یاسر شاہ یا @ظہیراحمدظہیر کچھ کہہ سکیں اس بارے میں۔ یہ اگر بحر ہندی کے مختلف افاعیل کے اخلاط سے تعلق رکھتا ہے تو مجھے کچھ مختلف بحور کا اختلاط پسند نہیں، چاہے اس کی اجازت ہو۔ جیسے یہاں تم نے
مفعول مفاعیلن فعلن
میں
فعلن فعلن فعلن فعلن( ف اور ع کلمات کو متحرک یا ساکن مانتے ہوئے)
مخلوط کر دی ہیں۔ دونوں بحور میں سولہ حروف ضرور ہوتے ہیں۔ مفعول مفاعلن فعلن کو بھی
مفعو/فعلن
ل مفا/ فعلن
عیلن/ فعلن
فعلن/ فعلن
تکنیکی طور پر کیا جا سکتا ہے لیکن صاف لگتا ہے کہ یہ دونوں بحور مختلف ہیں۔
اس غزل میں بیشتر مفعول، مفاعیلن، فعلن
افاعیل استعمال کئے گئے ہیں، ان کے بیچ
کھا کر مال یتیموں کا بھی
صاف لگتا ہے کہ بحر بدل گئی ہے
سر، کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشعار مفعول مفاعیلین فعلن کے تحت ہو جائیں
شاید کوئی رہ گیا ہو
ٹھیک ہے، مگر ہلکا ہے۔معیار اور میعاد کو اکثر غلط املا سے لکھا جانے لگا ہے۔ نہ جانے کیوں؟ درست معیار اور میعاد ہے، میعاری اور معیاد نہیں
میرے پاس درست لکھے ہوئے ہیں، یہاں غلطی سے حروف ادھر اُدھر ہو گئے تھے
کھاتے ہو مال یتیموں کا
مفعول مفاعیلن فعلن درست ہو سکتا ہے، لیکن دونوں کے درمیان مگر/لیکن کی کمی محسوس ہوتی ہے
تم مالِ یتیموں کا کھا کر
ایثار کی باتیں کرتے ہو
سر، حیدرِ کرّار سے سے کرّار لیا ہے
افاعیل کے علاوہ پہلے مصرع میں فاعل واضح نہیں ہوتا، ہم کو ڈر لگتا ہے یا تم ڈرتے ہو؟
تُم خوف زدہ ہو چوٹی سے
کہسار کی باتیں کرتے ہو
قابل ردیفین سےبچا جا سکتا ہے
تم مان کے فن کو گھٹیا بھی
فنکار کی باتیں کرتے ہو
کس کا سر، تمہارا یا ہمارا؟ واضح نہیں
درباری ہو کر کیسے، تم
انکار کی باتیں کرتے ہو
پہلا مصرع مفہوم کے اعتبار سے بہتر ہے لیکن افاعیل اور تقابل ردیفین!
ہو نا واقف مے کی میم سے بھی
ہو میم سے مَے کی نا واقف
مے خوار کی باتیں کرتے ہو
تم کو رپیٹ کرنے کی بجائے
جو پیار کی باتیں....
تم مارے جاؤ گے مقبول
اقدار کی باتیں کرتے ہو
مجموعی طور پر غزل زبردستی کی قافیہ پیمائی لگ رہی ہے!
سر، ہو سکتا ہے ایسا تاثر ملتا ہو ۔ ارادہ تو معاشرتی تضادات بیان کرنے کا تھا
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آپ کس لیے مارے جائیں ہم تو سمجھتے ہیں کہ:
تم بخشے جاو گے مقبول
یا
تم طیبہ جاو گے مقبول
یا
تم گلشن جاو گے مقبول
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
آپ کس لیے مارے جائیں ہم تو سمجھتے ہیں کہ:
تم بخشے جاو گے مقبول
یا
تم طیبہ جاو گے مقبول
یا
تم گلشن جاو گے مقبول
ہا ہا ہا
محترم نظامی صاحب۔ آپ کی محبت کا شکریہ 😁😁
کیونکہ تضاد لانا تھا تو خود کو مارے جانے کی وارننگ دینا پڑی 😄😄
 
Top