آغوشِ زندگی میں تمنا ہوا کرے
بےچارگی میں کوئی تو اپنا ہوا کرے
اس شعر میں "تمنا"، امید کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ یعنی زندگی میں کوئی امید ہو کہ بےچارگی میں کوئی تو اپنا ہو۔
//اسی خیال کو یوں ظاہر کیا جا سکتا ہے
کوئی نہ ہو تو ساتھ تمنا ہوا کرے
بےچارگی میں کوئی تو اپنا ہوا کرے
عاشق کرے گا ضبط، معین اگر ہو حد
صحرا نورد ہو، یا تو رسوا ہوا کرے
ضبط سے مراد برداشت کے لئے ہیں۔ یعنی عاشق کی برداشت کی بھی کوئی حد ہے۔ یا تو وہ صحرا نورد ہو یا پھر رسوا ہوا کرے۔
//صحرا نوردی اور رسوائی متضاد نوعیت کی نہیں۔ یوں کیا جا سکتا ہے
جب ضبط ہو نہ عشق، نکل جائے دشت میں
محفل میں ہی اگر ہو تو رسوا ہوا کرے
تم میرے خستہ حال پہ کرتے ہو یوں ہنسی
بس اب کے مجھ سے کوئی نہ گویا ہوا کرے
یعنی میرے خستہ حال پر، جو تمہارے عشق کی وجہ سے۔ اس کا اوپر سے مذاق بھی اڑاتے ہو۔ اس بات پر عاشق ناراض ہو رہا ہے
بات کئے بغیر بھی تو ہنسی اڑا سکتا ہے معشوق؟
اس کو بدل ہی دیا جائے۔
ہر سوئے گلستاں ہے معطر بہ دمِ گل
یوں فصلِ گل میں میرا بھی چرچا ہوا کرے
یعنی بہار میں جسطرح پورا گلستاں گل کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ میرا بھی گل کی طرح اس دنیا کے گلستاں میں تزکرہ ہو (خوشبو پھیلے)۔
//پہلا مصرع بحر سے خارج بھی ہے۔ یہی خیال یوں کہہ سکتے ہیں
جیسے مہک رہا ہے گلستاں بنامِ گل
یوں فصلِ گل میں میرا بھی چرچا ہوا کرے
ہر آدمی جہاں کا ہے اک ورقِ منفرد
شیرازہ بس تمام کا یکساں ہوا کرے
ہر انسان اس جہاں میں ایک کتاب کے صفحے کی طرح منفرد ہے(کہ ہر صفحے پر منفرد مضمون تحریر ہوتا ہے)۔ کہ اس کی انفرادیت بھی ہے لیکن اس کی افادیت اس وقت ہی ہو گی جب ایک کتاب کی شکل میں ہوں، یعنی بکھرے ہوئے نہ ہوں۔ یعنی ان کا شیرازہ (binding) ایک جیسا یا ایک ہو۔
//شیرازہ یکساں سے یہ مطلب برآمد ہوتا ہے؟
تکنیکی طور سے بھی قافیہ غلط ہے، یہ نون غنہ کہاں سے آ گیا؟