برائے اصلاح: آپ سے صرف سدا ہم نے محبت کی ہے

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب


زندگانی میں سیاست نہ عداوت کی ہے
آپ سے صرف سدا ہم نے محبت کی ہے

دل کی حسرت ہے اگر اور ستم ہم پہ ڈھا
ہم نے کیا پہلے کبھی تیری شکایت کی ہے؟۔

میرے حصے میں سدا خار ہی آئیں ہیں مگر
میں نے ہر دور میں پھولوں کی حفاظت کی ہے

ہے قصور اس کا مگر اس کو مناؤں گا ضرور
بات کچھ بھی نہیں، بس بات محبت کی ہے

آپ کے شہر کی نسبت کی وجہ سے ہم نے
آپ کے شہر کے ہر شخص کی عزت کی ہے

اپنی تہذیب و ثقافت کو بھلانا نہ کبھی
اپنے بچوں کو یہی ہم نے نصیحت کی ہے

گاؤں والوں نے بہت سارے شجر کاٹ دئیے
کہ پرندوں نے کہاں شوق سے ہجرت کی ہے

بس اسی وجّہ سے زندان میں ڈالا کہ بہت
ہم نے اس دورِ حکومت سے بغاوت کی ہے

کیسے مظلوم کو مظلوم کہیں ہم میثم
اس نے ظالم کی سرِ عام حمایت کی ہے
یاسر علی میثم
 
زندگانی میں سیاست نہ عداوت کی ہے
آپ سے صرف سدا ہم نے محبت کی ہے
پہلے مصرعے میں لفظ سیاست لانے کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ دوسرے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب غیر ضروری طور پر بگڑی ہوئی ہے۔
بدگمانی کبھی رکھی، نہ عداوت کی ہے
آپ سے ہم نے سدا صرف محبت کی ہے

دل کی حسرت ہے اگر اور ستم ہم پہ ڈھا
ہم نے کیا پہلے کبھی تیری شکایت کی ہے؟۔
دونوں مصرعوں کا ربط؟؟؟ پہلا مصرع بہت الجھا ہوا ہے۔
کچھ ستم اور سہی، گر یہ ہے تیری حسرت
ہم نے کیا پہلے کبھی کوئی شکایت کی ہے؟

میرے حصے میں سدا خار ہی آئیں ہیں مگر
میں نے ہر دور میں پھولوں کی حفاظت کی ہے
آئیں ہیں نہیں یہاں آئے ہیں کہا جائے گا ۔۔۔ ویسے پہلے مصرعے کی بندش کچھ اور چست کی جاسکتی ہے، مثلاً
میرے حصے میں ہمیشہ رہے کانٹے، لیکن ۔۔۔۔

ہے قصور اس کا مگر اس کو مناؤں گا ضرور
بات کچھ بھی نہیں، بس بات محبت کی ہے
ہے قصور اس کا، مگر پھر بھی مناؤں گا میں

آپ کے شہر کی نسبت کی وجہ سے ہم نے
آپ کے شہر کے ہر شخص کی عزت کی ہے
معنوی اعتبار سے یہ شعر کمزور ہے ۔۔۔ مربوط بیان یہ ہوتا کہ اس شہر کے ہر شخص کی عزت اس لیے کی گئی کیوں اس شہر کو ان سے نسبت ہے ۔۔۔ مگر آپ کے الفاظ یہ مفہوم ادا نہیں کر رہے ۔۔۔ علاوہ ازیں پہلے مصرعے میں وجہ کا تلفظ ٹھیک نہیں ۔۔۔ وجہ میں ج اور ہ دونوں ساکن ہوتے ہیں۔

گاؤں والوں نے بہت سارے شجر کاٹ دئیے
کہ پرندوں نے کہاں شوق سے ہجرت کی ہے
گاؤں والوں نے ہی سب پیڑ گرا ڈالے تھے
کب پرندوں نے بھلا شوق سے ہجرت کی ہے

بس اسی وجّہ سے زندان میں ڈالا کہ بہت
ہم نے اس دورِ حکومت سے بغاوت کی ہے
بغاوت حکومت سے کی جاتی ہے، دورِ حکومت سے بغاوت کرنا مہمل بات ہے

کیسے مظلوم کو مظلوم کہیں ہم میثم
اس نے ظالم کی سرِ عام حمایت کی ہے
مظلوم نے ظالم کی حمایت کی تھی تو اس پر ظلم ہوا ہی کیوں؟؟؟ بات کچھ واضح نہیں ۔۔۔
 

یاسر علی

محفلین
پہلے مصرعے میں لفظ سیاست لانے کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ دوسرے مصرعے میں الفاظ کی ترتیب غیر ضروری طور پر بگڑی ہوئی ہے۔
بدگمانی کبھی رکھی، نہ عداوت کی ہے
آپ سے ہم نے سدا صرف محبت کی ہے


دونوں مصرعوں کا ربط؟؟؟ پہلا مصرع بہت الجھا ہوا ہے۔
کچھ ستم اور سہی، گر یہ ہے تیری حسرت
ہم نے کیا پہلے کبھی کوئی شکایت کی ہے؟


آئیں ہیں نہیں یہاں آئے ہیں کہا جائے گا ۔۔۔ ویسے پہلے مصرعے کی بندش کچھ اور چست کی جاسکتی ہے، مثلاً
میرے حصے میں ہمیشہ رہے کانٹے، لیکن ۔۔۔۔


ہے قصور اس کا، مگر پھر بھی مناؤں گا میں


معنوی اعتبار سے یہ شعر کمزور ہے ۔۔۔ مربوط بیان یہ ہوتا کہ اس شہر کے ہر شخص کی عزت اس لیے کی گئی کیوں اس شہر کو ان سے نسبت ہے ۔۔۔ مگر آپ کے الفاظ یہ مفہوم ادا نہیں کر رہے ۔۔۔ علاوہ ازیں پہلے مصرعے میں وجہ کا تلفظ ٹھیک نہیں ۔۔۔ وجہ میں ج اور ہ دونوں ساکن ہوتے ہیں۔


گاؤں والوں نے ہی سب پیڑ گرا ڈالے تھے
کب پرندوں نے بھلا شوق سے ہجرت کی ہے


بغاوت حکومت سے کی جاتی ہے، دورِ حکومت سے بغاوت کرنا مہمل بات ہے


مظلوم نے ظالم کی حمایت کی تھی تو اس پر ظلم ہوا ہی کیوں؟؟؟ بات کچھ واضح نہیں ۔۔۔
بہت بہت شکریہ سر جی!
 

یاسر علی

محفلین
اصلاح کے لیے دو بارہ۔
الف عین صاحب



آپ کے شہر کی نسبت کے سبب سے ہم نے
آپ کے شہر کے ہر شخص کی عزت کی ہے

گاؤں والوں نے سبھی پیڑ گرا ڈالے تھے
کب پرندوں نے بھلا شوق سے ہجرت کی ہے

بس اسی وجّہ سے زندان میں ڈالا کہ بہت
حاکمِ وقت سے جو ہم نے بغاوت کی ہے

کسی طوفان سے میثم نہیں گر سکتی وہ
ہم نے تعمیر جو الفت کی عمارت کی ہے
 
Top