حاصل جاں نہیں کچھ ہے سوائے آبِ ندامت کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ آبِ بحرِ ملامت کے ساحل پر کھڑا ڈھونڈتا ہوں جو آشیانے کو میں خشکی بر سرک ہی گئی نیچے سے یہ افلاک کے