برائے اصلاح: اس کو مَے خانے میں پا یا تو کئی بار گرے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی گذارش ہے
اس کو مَے خانے میں پا یا تو کئی بار گرے
ابھی کھنکے بھی نہ تھے جام کہ مَے خوار گرے
( اس مصرعہ میں پہلے فاعلاتن کی بجائے فعلاتن کا استعمال اچازت کے مطابق ہے)

مجھ کو دریا میں اترنا ہے ، گھڑا جیسا بھی ہو
یہ نہیں چاہتا میں ،عشق کا معیار گرے

اس کے آنسو تو مرے دل پہ گرے ہیں ایسے
جیسے بارود بھرا شہر پہ ہتھیار گرے

لائے خوشیوں کی خبر بھی تو کوئی میرے لیے
میرے گھر میں بھی تو ایسا کبھی اخبار گرے

گاؤں کا گاؤں مرا تب سے ہے ویران پڑا
گھر بنانے کے لیے کٹ کے جب اشجار گرے

کچھ بھی کر لے تو زمانے میں مگر عشق نہ کر
گر تو چاہے کہ ترے سر سے نہ دستار گرے

میں اب اور کتنا گروں تجھ کو منانے کے لیے
کچھ تو اب تیری انا کا بھی یہ کُہسار گرے

ووٹ دے کر جو بڑے شوق سے لائے تھے اسے
وُہ دُعا مانگ رہے ہیں کہ یہ سرکار گرے

گئے ہیں جاں سے بہت عام سپاہی اب تک
لوگ کچھ چاہتے ہیں فوج کا سالار گرے

مارنے ہیں تو ابھی مار سبھی خواب مرے
یا
کر جو کرنا ہے ، بدل جائے نہ حالت تیری
اس سے پہلے کہ ترے ہاتھ سے تلوار گرے

اپنے قدموں میں بھی تم نے مجھے گرنے نہ دیا
اور کہاں جا کے تمہارا یہ طلب گار گرے

زندگی تیز ہوئی جاتی ہے مقبول بہت
کچھ کرو ایسا کہ اب وقت کی رفتار گرے
یا
رب سے مانگو یہ دُعا وقت کی رفتار گرے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس کو مَے خانے میں پا یا تو کئی بار گرے
ابھی کھنکے بھی نہ تھے جام کہ مَے خوار گرے
( اس مصرعہ میں پہلے فاعلاتن کی بجائے فعلاتن کا استعمال اچازت کے مطابق ہے)
.. واضح نہیں ہو رہا، پہلے مصرع میں گرے کا فاعل مے خوار صرف گیس کیا جا سکتا ہے

مجھ کو دریا میں اترنا ہے ، گھڑا جیسا بھی ہو
یہ نہیں چاہتا میں ،عشق کا معیار گرے
... پہلے مصرع کی بندش اچھی نہیں لگ رہی

اس کے آنسو تو مرے دل پہ گرے ہیں ایسے
جیسے بارود بھرا شہر پہ ہتھیار گرے
... ہتھیار ہاتھوں میں رہنے والے اسلحے ہی.، بم کی طرح نہیں گرتے

لائے خوشیوں کی خبر بھی تو کوئی میرے لیے
میرے گھر میں بھی تو ایسا کبھی اخبار گرے
.. اخبار کاگرنا کوئی محاورہ نہیں، یہ بھی محض قافیہ بندی ہے

گاؤں کا گاؤں مرا تب سے ہے ویران پڑا
گھر بنانے کے لیے کٹ کے جب اشجار گرے
... پیڑ کیا اپنے آپ گر گئے؟
پہلا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے،( ایکسرسائز نہیں کی تم نے )
.. تب سے پڑا ہے ویران

کچھ بھی کر لے تو زمانے میں مگر عشق نہ کر
گر تو چاہے کہ ترے سر سے نہ دستار گرے
.. دوسرا یوں ہو تو
چاہتا ہو کہ ترے...

میں اب اور کتنا گروں تجھ کو منانے کے لیے
کچھ تو اب تیری انا کا بھی یہ کُہسار گرے
..اور اب کتنا گروں..

ووٹ دے کر جو بڑے شوق سے لائے تھے اسے
وُہ دُعا مانگ رہے ہیں کہ یہ سرکار گرے
... ووٹ دے کر جو بڑے شوق سے خود لائے تھے
اب دعا......

گئے ہیں جاں سے بہت عام سپاہی اب تک
لوگ اب چاہتے ہیں فوج کا سالار گرے
پہلا مصرع رواں نہیں لگتا، الفاظ /ترتیب بدلو

قتل کر دے تُو مجھے اور سبھی خواب مرے
اس سے پہلے کہ ترے ہاتھ سے تلوار گرے
.. ٹھیک

اپنے قدموں میں بھی تم نے مجھے گرنے نہ دیا
اور کہاں جا کے تمہارا یہ طلب گار گرے
.. درست

زندگی تیز ہوئی جاتی ہے مقبول یوں ہی
کچھ کرو ایسا کہ اب وقت کی رفتار گرے
.. ٹھیک
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
کچھ بہتری کی کوشش کی ہے
اس کو مَے خانے میں پا یا تو کئی بار گرے
ابھی کھنکے بھی نہ تھے جام کہ مَے خوار گرے
( اس مصرعہ میں پہلے فاعلاتن کی بجائے فعلاتن کا استعمال اچازت کے مطابق ہے)
اس کو دیکھا تو کئی طالبِ دیدار گرے
ابھی کھنکے بھی نہ تھے جام کہ مَے خوار گرے
مجھ کو دریا میں اترنا ہے ، گھڑا جیسا بھی ہو
یہ نہیں چاہتا میں ،عشق کا معیار گرے
... پہلے مصرع کی بندش اچھی نہیں لگ رہی
مجھ کو دریا میں اترنا ہے ، لیے کچا گھڑا
میں نہیں چاہتا یہ ،عشق کا معیار گرے
اس کے آنسو تو مرے دل پہ گرے ہیں ایسے
جیسے بارود بھرا شہر پہ ہتھیار گرے
... ہتھیار ہاتھوں میں رہنے والے اسلحے ہی.، بم کی طرح نہیں گرتے
اس کے آنسو تو مرے دل پہ گرے ہیں ایسے
جیسے خاشاک پہ انگاروں کا انبار گرے
لائے خوشیوں کی خبر بھی تو کوئی میرے لیے
میرے گھر میں بھی تو ایسا کبھی اخبار گرے
.. اخبار کاگرنا کوئی محاورہ نہیں، یہ بھی محض قافیہ بندی ہے
سر، گھروں کے گیٹ کے اوپر یا نیچے سے اخبار والا اخبار گرا کے جاتا تھا / ہے۔ اس لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ اس شعر کو نکال سکتا ہوں
گاؤں کا گاؤں مرا تب سے ہے ویران پڑا
گھر بنانے کے لیے کٹ کے جب اشجار گرے
... پیڑ کیا اپنے آپ گر گئے؟
پہلا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے،( ایکسرسائز نہیں کی تم نے )
.. تب سے پڑا ہے ویران
گاؤں کا گاؤں ہی ویران پڑا ہے، جب سے
گھر بنانے کو مرے ہاتھ سے اشجار گرے
کچھ بھی کر لے تو زمانے میں مگر عشق نہ کر
گر تو چاہے کہ ترے سر سے نہ دستار گرے
.. دوسرا یوں ہو تو
چاہتا ہو کہ ترے...

میں اب اور کتنا گروں تجھ کو منانے کے لیے
کچھ تو اب تیری انا کا بھی یہ کُہسار گرے
..اور اب کتنا گروں..

ووٹ دے کر جو بڑے شوق سے لائے تھے اسے
وُہ دُعا مانگ رہے ہیں کہ یہ سرکار گرے
... ووٹ دے کر جو بڑے شوق سے خود لائے تھے
اب دعا......
شُکریہ، تینوں اشعار آپ کی تجاویز کے مطابق تبدیل کر دیے ہیں
گئے ہیں جاں سے بہت عام سپاہی اب تک
لوگ اب چاہتے ہیں فوج کا سالار گرے
پہلا مصرع رواں نہیں لگتا، الفاظ /ترتیب بدلو
جنگ چلتی ہے، مریں لاکھ سپاہی چاہے
مُلک گرتے ہیں کہ جب فوج کا سالار گرے
قتل کر دے تُو مجھے اور سبھی خواب مرے
اس سے پہلے کہ ترے ہاتھ سے تلوار گرے
.. ٹھیک
یہ متبادل بھی دیکھ لیجیے
کر جو کرنا ہے ، بدل جائے نہ تیری حالت
اس سے پہلے کہ ترے ہاتھ سے تلوار گرے
زندگی تیز ہوئی جاتی ہے مقبول یوں ہی
کچھ کرو ایسا کہ اب وقت کی رفتار گرے
.. ٹھیک
اس کا متبادل بھی دیکھ لیجیے
زندگی تیز ہوئی جاتی ہے مقبول بہت
رب سے مانگو یہ دُعا وقت کی رفتار گرے
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین ، بہت شکریہ
کچھ بہتری کی کوشش کی ہے

اس کو دیکھا تو کئی طالبِ دیدار گرے
ابھی کھنکے بھی نہ تھے جام کہ مَے خوار گرے
.. بہتر ہو گیا
مجھ کو دریا میں اترنا ہے ، لیے کچا گھڑا
میں نہیں چاہتا یہ ،عشق کا معیار گرے
.. درست
اس کے آنسو تو مرے دل پہ گرے ہیں ایسے
جیسے خاشاک پہ انگاروں کا انبار گرے
یہ بھی درست

سر، گھروں کے گیٹ کے اوپر یا نیچے سے اخبار والا اخبار گرا کے جاتا تھا / ہے۔ اس لحاظ سے استعمال کیا ہے۔ اس شعر کو نکال سکتا ہوں
شعر نکال ہی دو
گاؤں کا گاؤں ہی ویران پڑا ہے، جب سے
گھر بنانے کو مرے ہاتھ سے اشجار گرے
یہ بھی اچھا نہیں لگ رہا

شُکریہ، تینوں اشعار آپ کی تجاویز کے مطابق تبدیل کر دیے ہیں

جنگ چلتی ہے، مریں لاکھ سپاہی چاہے
مُلک گرتے ہیں کہ جب فوج کا سالار گرے
درست
یہ متبادل بھی دیکھ لیجیے
کر جو کرنا ہے ، بدل جائے نہ تیری حالت
اس سے پہلے کہ ترے ہاتھ سے تلوار گرے
پہلے والا ہی بہتر ہے
اس کا متبادل بھی دیکھ لیجیے
زندگی تیز ہوئی جاتی ہے مقبول بہت
رب سے مانگو یہ دُعا وقت کی رفتار گرے
یہ بھی پہلے والا ہی بہتر ہے
کچھ اقتباس میں ہی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے
 
Top