مقبول
محفلین
سر الف عین
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
اُس بن ہزار سال بھی گر ہم جئیں تو کیا
(ایطا دور کرنے کے لیے مصرع میں تبدیلی کی ہے)
اُس بن ہزار سال جو ہم جی بھی لیں تو کیا
دھڑکے نہ دل ہمارا کہ سانسیں تھمیں تو کیا
یہ بھی مطلع اولیٰ ہو سکتا ہے؟
پیغامِ ان کو پیار کا ہم دے بھی دیں تو کیا
ان کے لیے ہم اپنی اگر جاں بھی لیں تو کیا
یا
ان کے لیے ہم اپنی اگر جاں بھی دیں تو کیا
یا ہم کسی بھی اور کی جاں لے بھی لیں تو کیا
جس نے تھا اپنا ساتھ نبھانا چلا گیا
اب عمر بھر بھی وصل کے نغمے سنیں تو کیا
اس کے بغیر کچھ بھی تو روشن نہیں رہا
سب قمقمے بھی شہر کے جلتے رہیں تو کیا
کہہ دیں سبھی کو کیا کہ وُہ لوٹے گا اب نہیں؟
دیں کیا دلاسے خود کو بھی دل کو کہیں تو کیا
دیوانہ، نا مراد کہیں خود کو یا کہ رند
تختی پہ گھر کی نام بھی اپنا لکھیں تو کیا
پینے سے بھی غلط نہیں ہوتے یہ غم سبھی
اس بے بسی میں جینے کی کوشش کریں تو کیا
ہم کو خزاں ہے اپنے ہی اندر کی کھا رہی
آئے بہار، پھول چمن میں کھلیں تو کیا
آنکھوں میں آنسوؤں کی مرے ہے دبیز تہہ
تصویرِ زندگی میں جو رنگ اب بھریں تو کیا
ہم ہیں کبھی کے مر گئے، لاشیں ہیں رہ گئیں
روئیں ہمارے حال پہ لوگ اب، ہنسیں تو کیا
سستا لہو ہے قوم کا پانی سے بھی یہاں
دریا جو خون کے بھی مسلسل بہیں تو کیا
مقبول ہوں گی کم تو نہیں آزمائشیں
ہم عشق بھی نہ گر کریں اب پھر کریں تو کیا
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
اُس بن ہزار سال بھی گر ہم جئیں تو کیا
(ایطا دور کرنے کے لیے مصرع میں تبدیلی کی ہے)
اُس بن ہزار سال جو ہم جی بھی لیں تو کیا
دھڑکے نہ دل ہمارا کہ سانسیں تھمیں تو کیا
یہ بھی مطلع اولیٰ ہو سکتا ہے؟
پیغامِ ان کو پیار کا ہم دے بھی دیں تو کیا
ان کے لیے ہم اپنی اگر جاں بھی لیں تو کیا
یا
ان کے لیے ہم اپنی اگر جاں بھی دیں تو کیا
یا ہم کسی بھی اور کی جاں لے بھی لیں تو کیا
جس نے تھا اپنا ساتھ نبھانا چلا گیا
اب عمر بھر بھی وصل کے نغمے سنیں تو کیا
اس کے بغیر کچھ بھی تو روشن نہیں رہا
سب قمقمے بھی شہر کے جلتے رہیں تو کیا
کہہ دیں سبھی کو کیا کہ وُہ لوٹے گا اب نہیں؟
دیں کیا دلاسے خود کو بھی دل کو کہیں تو کیا
دیوانہ، نا مراد کہیں خود کو یا کہ رند
تختی پہ گھر کی نام بھی اپنا لکھیں تو کیا
پینے سے بھی غلط نہیں ہوتے یہ غم سبھی
اس بے بسی میں جینے کی کوشش کریں تو کیا
ہم کو خزاں ہے اپنے ہی اندر کی کھا رہی
آئے بہار، پھول چمن میں کھلیں تو کیا
آنکھوں میں آنسوؤں کی مرے ہے دبیز تہہ
تصویرِ زندگی میں جو رنگ اب بھریں تو کیا
ہم ہیں کبھی کے مر گئے، لاشیں ہیں رہ گئیں
روئیں ہمارے حال پہ لوگ اب، ہنسیں تو کیا
سستا لہو ہے قوم کا پانی سے بھی یہاں
دریا جو خون کے بھی مسلسل بہیں تو کیا
مقبول ہوں گی کم تو نہیں آزمائشیں
ہم عشق بھی نہ گر کریں اب پھر کریں تو کیا
آخری تدوین: