برائے اصلاح: اٹھارہ سال کے ہیں ہم سفید بال ہوئے

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب


کسی کے ہجر میں اتنے خراب حال ہوئے
اٹھارہ سال کے ہیں ہم، سفید بال ہوئے

ہم اپنی ذات کو پہچان اب نہیں پاتے
کسی کی چاہ میں اس طرح پائمال ہوئے

انہوں نے زخم دئیے جن پہ اعتبار کیا
ہماری زندگی میں حادثے کمال ہوئے

نہ فون اس نے اٹھایا نہ ہم منانے گئے
جدا ہوئے تو نہ پھر رابطے بحال ہوئے

جہان سارا ہی بے رنگ سا لگا ہم کو
ترے خیال سے جس لمحے بے خیال ہوئے

وہ دلنشین پرندہ نہ لوٹ کر آیا
ہماری چھت سے اڑے جس کو ماہ و سال ہوئے

کسی کا حسنِ سراپا نہیں ہے تم جیسا
اسی طفیل تم آپ اپنی ہی مثال ہوئے

بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد سدا زیست میں و بال ہوئے

تمھارے حسن کی رعنائی کا اثر ہے فقط
ہمارے اس لئے ہی شعر لازوال ہوئے
یاسر علی میثم
 
اٹھارہ سال کے ہیں ہم، سفید بال ہوئے

اٹھارہ کے غلط ہجے باندھے ہیں۔ ٹھ پر تشدید ہونا چاہیے۔

انہوں نے زخم دئیے جن پہ اعتبار کیا
ہماری زندگی میں حادثے کمال ہوئے

جنھوں نے زخم دئیے ان پہ اعتبار کیا
ہماری زیست میں یہ حادثے کمال ہوئے

ترے خیال سے جس لمحے بے خیال ہوئے

لمحے کو لمحہ لکھیے
ہمارے اس لئے ہی شعر لازوال ہوئے

دوسرے مصرع میں الفاظ کی نشست درست نہیں
 

الف عین

لائبریرین
کسی کے ہجر میں اتنے خراب حال ہوئے
اٹھارہ سال کے ہیں ہم، سفید بال ہوئے
... درست

ہم اپنی ذات کو پہچان اب نہیں پاتے
کسی کی چاہ میں اس طرح پائمال ہوئے
... پہلے مصرع میں 'اب' بھرتی لگتا ہے، 'ہی' کر دینے سے بے ساختگی محسوس ہوتی ہے

انہوں نے زخم دئیے جن پہ اعتبار کیا
ہماری زندگی میں حادثے کمال ہوئے
... حادثے کمال ہونا محاورہ نہیں، کمال کے حادثے کہنا چاہئے

نہ فون اس نے اٹھایا نہ ہم منانے گئے
جدا ہوئے تو نہ پھر رابطے بحال ہوئے
... درست

جہان سارا ہی بے رنگ سا لگا ہم کو
ترے خیال سے جس لمحے بے خیال ہوئے
... اچھا خیال ہے شعر جا، لمحے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، اسے 'پل بھی' کر دو

وہ دلنشین پرندہ نہ لوٹ کر آیا
ہماری چھت سے اڑے جس کو ماہ و سال ہوئے
.. کس طرف اشارہ ہے؟ نہ لوٹ کر' کی بجائے' لوٹ کر نہیں ' استعمال کرنے کی کوشش کرو

کسی کا حسنِ سراپا نہیں ہے تم جیسا
اسی طفیل تم آپ اپنی ہی مثال ہوئے
.. ٹھیک ہے اگرچہ طفیل مجھے کچھ مناسب لفظ نہیں لگا

بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد سدا زیست میں و بال ہوئے
.. وبال، اور وہ بھی جمع میں! زندگی خود وبال ہو سکتی ہے، لیکن زندگی میں وبال ہو گئے درست نہیں

تمھارے حسن کی رعنائی کا اثر ہے فقط
ہمارے اس لئے ہی شعر لازوال ہوئے
... پہلے مصرع کے بیانیے کے مطابق دوسرے مصرعے میں 'کہ' کا محل تھا، بلکہ حال اور ماضی گڈ مڈ ہونے سے ایک طرح کا شتر گربہ ہو رہا ہے 'گھا فقط' بہتر ہو گا
ثانی میں یا تو 'کہ' لاؤ یا کچھ مت لاؤ، اس لئے کی ضرورت نہیں
 

یاسر علی

محفلین

یاسر علی

محفلین
کسی کے ہجر میں اتنے خراب حال ہوئے
اٹھارہ سال کے ہیں ہم، سفید بال ہوئے
... درست

ہم اپنی ذات کو پہچان اب نہیں پاتے
کسی کی چاہ میں اس طرح پائمال ہوئے
... پہلے مصرع میں 'اب' بھرتی لگتا ہے، 'ہی' کر دینے سے بے ساختگی محسوس ہوتی ہے

انہوں نے زخم دئیے جن پہ اعتبار کیا
ہماری زندگی میں حادثے کمال ہوئے
... حادثے کمال ہونا محاورہ نہیں، کمال کے حادثے کہنا چاہئے

نہ فون اس نے اٹھایا نہ ہم منانے گئے
جدا ہوئے تو نہ پھر رابطے بحال ہوئے
... درست

جہان سارا ہی بے رنگ سا لگا ہم کو
ترے خیال سے جس لمحے بے خیال ہوئے
... اچھا خیال ہے شعر جا، لمحے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگتا، اسے 'پل بھی' کر دو

وہ دلنشین پرندہ نہ لوٹ کر آیا
ہماری چھت سے اڑے جس کو ماہ و سال ہوئے
.. کس طرف اشارہ ہے؟ نہ لوٹ کر' کی بجائے' لوٹ کر نہیں ' استعمال کرنے کی کوشش کرو

کسی کا حسنِ سراپا نہیں ہے تم جیسا
اسی طفیل تم آپ اپنی ہی مثال ہوئے
.. ٹھیک ہے اگرچہ طفیل مجھے کچھ مناسب لفظ نہیں لگا

بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد سدا زیست میں و بال ہوئے
.. وبال، اور وہ بھی جمع میں! زندگی خود وبال ہو سکتی ہے، لیکن زندگی میں وبال ہو گئے درست نہیں

تمھارے حسن کی رعنائی کا اثر ہے فقط
ہمارے اس لئے ہی شعر لازوال ہوئے
... پہلے مصرع کے بیانیے کے مطابق دوسرے مصرعے میں 'کہ' کا محل تھا، بلکہ حال اور ماضی گڈ مڈ ہونے سے ایک طرح کا شتر گربہ ہو رہا ہے 'گھا فقط' بہتر ہو گا
ثانی میں یا تو 'کہ' لاؤ یا کچھ مت لاؤ، اس لئے کی ضرورت نہیں

شکریہ سر الف عین صاحب!
اصلاح کے بعد دوبارہ۔




ہم اپنی ذات کو پہچان ہی نہیں پاتے
کسی کی چاہ میں اس طرح پائمال ہوئے

وہ اک پرندہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
ہماری چھت سے اڑے جس کو ماہ و سال ہوئے

کسی کا حسنِ سراپا نہیں ہے تم جیسا
اسی سبب سے تم آپ اپنی ہی مثال ہوئے

بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد ہر اک روز وشب و بال ہوئے

تمھارے حسن کی رعنائی کا اثر تھا فقط
ہمارے یونہی نہیں شعر لازوال ہوئے

ہمارا دہر میں میثم مقام کچھ بھی نہ تھا
تمھاری چشمِ عنایت سے با کمال ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد ہر اک روز وشب و بال ہوئے
اس شعر کو رکھنا ضروری ہے؟ وبال ہوئے جمع کے صیغے میں ہے، اس لئے اس سے پہلے 'ہر اک' غلط ہے، 'سبھی' کا محل ہے

ہمارے یونہی نہیں شعر لازوال ہوئے
شاید
ہمارے شعر کہاں یونہی شعر لازوال ہوئے
شاید بہتر ہے روانی میں
باقی درست ہیں اشعار
 

یاسر علی

محفلین
بس ایک لمحہ گزارا تھا وصل کا ہم نے
پھر اس کے بعد ہر اک روز وشب و بال ہوئے
اس شعر کو رکھنا ضروری ہے؟ وبال ہوئے جمع کے صیغے میں ہے، اس لئے اس سے پہلے 'ہر اک' غلط ہے، 'سبھی' کا محل ہے

ہمارے یونہی نہیں شعر لازوال ہوئے
شاید
ہمارے شعر کہاں یونہی شعر لازوال ہوئے
شاید بہتر ہے روانی میں
باقی درست ہیں اشعار
شکریہ سر جی!
 
Top