مقبول
محفلین
استادِ محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب کی خدمت میں یہ غزل بغرضِ اصلاح پیش کر رہا ہوں
اک نظر اس کی ہے کافی مجھے میخانے میں
چاہے کچھ ڈالے نہ ڈالے مرے پیمانے میں
لطف اتنا ہے میسر کہیں بھی اور کہاں
جتنا بانہوں میں تری پی کے ہے لہرانے میں
رنگ کیسے نہ نظر آئیں، مہک کیسے نہ ہو
ہر جگہ ذکر ہے بکھرا ترا افسانے میں
قاف کے ملک کی پریوں میں بھی وُہ بات نہیں
جو ہے ہنسنے میں ترے، تیرے جو شرمانے میں
کتنی رونق تھی وہ جب پاس مرے تھا مقبول
کون اب گھر کے مرے آئے گا ویرانے میں
اک نظر اس کی ہے کافی مجھے میخانے میں
چاہے کچھ ڈالے نہ ڈالے مرے پیمانے میں
لطف اتنا ہے میسر کہیں بھی اور کہاں
جتنا بانہوں میں تری پی کے ہے لہرانے میں
رنگ کیسے نہ نظر آئیں، مہک کیسے نہ ہو
ہر جگہ ذکر ہے بکھرا ترا افسانے میں
قاف کے ملک کی پریوں میں بھی وُہ بات نہیں
جو ہے ہنسنے میں ترے، تیرے جو شرمانے میں
کتنی رونق تھی وہ جب پاس مرے تھا مقبول
کون اب گھر کے مرے آئے گا ویرانے میں