اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب ،محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب ،محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
§§§§§§§§§§§§§
اگر وہ تیرا دیوانہ نہیں ہے
تو پھر ناداں ہے وہ ، دانا نہیں ہے !
جو اشک آنکھوں میں ہے ، کر ناز اُس پر
کہ وہ منّت کشِ شانہ نہیں ہے
کسی کو تحفہ میں کچھ وقت دے دو
یہ کوئی چھوٹا نذرانہ نہیں ہے !
بہکنا نئیں ، سنورنے کے لیے آ !
یہ مکتب ہے ، یہ مے خانہ نہیں ہے
کسی کے گھر میں راشن کی ہے بہتات
کسی کے گھر میں اک دانہ نہیں ہے
یا
کہیں کھا کھا کے کوئی مر رہا ہے
کہیں اک وقت کا کھانا نہیں ہے
اب اس کے آگے مرضی ہے تمہاری
مجھے اب اور سمجھانا نہیں ہے
وہی ہوتا ہے جو لکھّا ہُوا ہے !
عبث پھر کیا یہ پچھتانا ، نہیں ہے ؟
تو پھر اِس پار سے ہی دل لگا لے !
یا
تو پھر اُس پار کی باتیں بھی مت کر
تجھے اُس پار اگر جانا نہیں ہے
ہمارے شعر کا قد ناپ لے جو
عدم میں بھی وہ پیمانہ نہیں ہے
فقط جگجیت گا سکتے (ہیں/تھے) اِس کو
غزل ہے یہ کوئی گانا نہیں ہے
§ ق §
تمہیں چھونے کی چاہت بھی ہے لیکن
تمہارے پاس اب آنا نہیں ہے
شگفتہ شعر بھی کہنا ہے یعنی
تمہارا نام بھی لانا نہیں ہے
کسی اشرف علی کا قصہ ہے یہ
نہیں ! یہ میرا افسانہ نہیں ہے
§§§§§§§§
یہ سچ ہے یار افسانا نہیں ہے
کوئی بیگانہ ، بیگانہ نہیں ہے
صنم ہوتے نہیں ، ملتے ہیں لیکن
یا
صنم کو نئیں ، صَمَد کو یاد کیجے
کہ یہ مسجد ہے ، بت خانہ نہیں ہے
بہت خوش ہیں ، یہ سُن کر صنفِ نازک
جہاں میں ایک مے خانہ نہیں ہے !
کہاں جاؤں شکستہ دل کو لے کر
کسی سے اپنا یارانہ نہیں ہے
بڑھا لے اور تھوڑا شوقِ پرواز
فلک سے آگے کیا جانا نہیں ہے ؟
بہت سے نقش ہائے پا ہیں اِس پر
یہ دشتِ دل تو ویرانہ نہیں ہے
نہاں ہے ، حُسن کے پردے میں خود عشق
نہ کہنا ! شمع ، پروانہ نہیں ہے
عبث ہے اُس سے شکوہ کرنا اشرف !
کہ جس نے تجھ کو پہچانا نہیں ہے
محترم یاسر شاہ صاحب ،محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
§§§§§§§§§§§§§
اگر وہ تیرا دیوانہ نہیں ہے
تو پھر ناداں ہے وہ ، دانا نہیں ہے !
جو اشک آنکھوں میں ہے ، کر ناز اُس پر
کہ وہ منّت کشِ شانہ نہیں ہے
کسی کو تحفہ میں کچھ وقت دے دو
یہ کوئی چھوٹا نذرانہ نہیں ہے !
بہکنا نئیں ، سنورنے کے لیے آ !
یہ مکتب ہے ، یہ مے خانہ نہیں ہے
کسی کے گھر میں راشن کی ہے بہتات
کسی کے گھر میں اک دانہ نہیں ہے
یا
کہیں کھا کھا کے کوئی مر رہا ہے
کہیں اک وقت کا کھانا نہیں ہے
اب اس کے آگے مرضی ہے تمہاری
مجھے اب اور سمجھانا نہیں ہے
وہی ہوتا ہے جو لکھّا ہُوا ہے !
عبث پھر کیا یہ پچھتانا ، نہیں ہے ؟
تو پھر اِس پار سے ہی دل لگا لے !
یا
تو پھر اُس پار کی باتیں بھی مت کر
تجھے اُس پار اگر جانا نہیں ہے
ہمارے شعر کا قد ناپ لے جو
عدم میں بھی وہ پیمانہ نہیں ہے
فقط جگجیت گا سکتے (ہیں/تھے) اِس کو
غزل ہے یہ کوئی گانا نہیں ہے
§ ق §
تمہیں چھونے کی چاہت بھی ہے لیکن
تمہارے پاس اب آنا نہیں ہے
شگفتہ شعر بھی کہنا ہے یعنی
تمہارا نام بھی لانا نہیں ہے
کسی اشرف علی کا قصہ ہے یہ
نہیں ! یہ میرا افسانہ نہیں ہے
§§§§§§§§
یہ سچ ہے یار افسانا نہیں ہے
کوئی بیگانہ ، بیگانہ نہیں ہے
صنم ہوتے نہیں ، ملتے ہیں لیکن
یا
صنم کو نئیں ، صَمَد کو یاد کیجے
کہ یہ مسجد ہے ، بت خانہ نہیں ہے
بہت خوش ہیں ، یہ سُن کر صنفِ نازک
جہاں میں ایک مے خانہ نہیں ہے !
کہاں جاؤں شکستہ دل کو لے کر
کسی سے اپنا یارانہ نہیں ہے
بڑھا لے اور تھوڑا شوقِ پرواز
فلک سے آگے کیا جانا نہیں ہے ؟
بہت سے نقش ہائے پا ہیں اِس پر
یہ دشتِ دل تو ویرانہ نہیں ہے
نہاں ہے ، حُسن کے پردے میں خود عشق
نہ کہنا ! شمع ، پروانہ نہیں ہے
عبث ہے اُس سے شکوہ کرنا اشرف !
کہ جس نے تجھ کو پہچانا نہیں ہے
آخری تدوین: