برائے اصلاح :اگر وہ چاند مل جائے ستارے چھوڑ دیں گے ہم

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب


اگر وہ چاند مل جائے ستارے چھوڑ دیں گے ہم
ادھورے سب وفا کے استخارے چھوڑ دیں گے ہم

اگر وہ شخص حاصل ہو گیا، پھر زندگانی میں
سبھی دریائے دولت کے کنارے چھوڑ دیں گے ہم

ہماری یہ اگر عادت تمھیں اچھی نہیں لگتی
تو پھر چھت سے تمھیں کرنا اشارے چھوڑ دیں گے ہم

تخیل ذہن میں آنا ہمارے چھوڑ دے گا جب
تمھارے حسن کے کرنا نظارے چھوڑ دیں گے ہم

ہمارے تم اگر ہاتھوں میں ہاتھوں کو تھما ڈالو
تو پھر بے کار دنیا کے سہارے چھوڑ دیں گے ہم

زمانے میں عداوت اور نفرت پھیل جائے گی
محبت کرنا جب سارے کے سارے چھوڑ دیں گے ہم

ہمارے ذہن میں روشن خیالی آئے گی میثم
برا جب سوچنا اوروں کے بارے چھوڑ دیں گے ہم
یاسر علی میثم
 
اس غزل پھر کچھ دن خود غور کرو اور دیکھو کہاں کیا بہتری آ سکتی ہے۔
مثلا مطلعے میں ’’وہ چاند‘‘ کہنے کی کیا معنویت ہے؟ عرف میں تو ایک ہی چاند ہوتا ہے ۔۔۔
وفا کے استخارے کیا ہوتے ہیں؟؟؟
 

یاسر علی

محفلین
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
میں نے اپنے تئیں کوشش کی ہے۔اب آپ مزید روشنی ڈالیں۔ شکریہ



اگر وہ چاند مل جائے ستارے چھوڑ دیں گے ہم
ادھورے سب وفا کے استخارے چھوڑ دیں گے ہم

"چاند" سے مراد محبوب ہے اور "ستاروں" سے مراد عام لوگ
"استخارےسے مراد " خدا سے اپنے محبوب کو مانگنے کے لئے رب کے حضور سجدہ ریز ہونا۔یا پھر دعائے استخارہ پڑھنا جتنے دن کے لئے استخارہ کرنا ہو۔


اگر وہ شخص مل جائے تو پھر شمس و قمر، گل اور
سبھی دریائے دولت کے کنارے چھوڑ دیں گے ہم

ہماری یہ اگر عادت تمھیں اچھی نہیں لگتی
تو پھر چھت سے تمھیں کرنا اشارے چھوڑ دیں گے ہم

تخیل میں ہمارے چاشنی کچھ بھی نہ آئے گی
ترے جب حسن کے کرنا نظارے چھوڑ دیں گے ہم

ہمارے تھام لو اک بار گر تم پختگی سے ہاتھ
تو پھر بے کار اوروں کے سہارے چھوڑ دیں گے ہم

زمانے میں عداوت اور نفرت پھیل جائے گی
محبت کرنا جب سارے کے سارے چھوڑ دیں گے ہم

ہمارے ذہن میں روشن خیالی آئے گی میثم
برا جب سوچنا اوروں کے بارے چھوڑ دیں گے ہم
یاسر علی میثم
 
"چاند" سے مراد محبوب ہے اور "ستاروں" سے مراد عام لوگ
یہ بات بغیر تشریح کے تب ہی واضح ہو سکتی ہے اگر چاند سا کہا جاتا ...

"استخارےسے مراد " خدا سے اپنے محبوب کو مانگنے کے لئے رب کے حضور سجدہ ریز ہونا۔یا پھر دعائے استخارہ پڑھنا جتنے دن کے لئے استخارہ کرنا ہو۔
بھائی یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ مطلق استخارہ کیا ہوتا ہے. میرا سوال تھا کہ وفا کے استخارے کیا ہوتے ہیں؟
ویسے آپ کی وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ استخارے کو صلوٰۃ الحاجات کے ساتھ خلط کر رہے ہیں :)
اور ایک لمحے کو دونوں کو ایک سمجھ بھی لیا جائے تو یہ تو بڑی ناشکری والی بات ہوگی کہ دعا قبول ہوتے ہی عبادت ادھوری چھوڑی دی جائے!!!

اگر وہ شخص مل جائے تو پھر شمس و قمر، گل اور
سبھی دریائے دولت کے کنارے چھوڑ دیں گے ہم
شمس و قمر اور دریائے دولت جیسی غالی چیزوں کے درمیان پھول جیسی معمولی شے کیوں گھسا رہے ہیں؟ وہ بھی بس ایک!!!
دریا کے دو ہی کنارے ہوتے ہیں، ان میں سے بھی ایک وقت میں ایک ہی کنارا پکڑا جا سکتا ہے ... "سبھی کنارے چھوڑنا" آپ کو کچھ عجیب سی بات نہیں لگتی؟؟؟

ہماری یہ اگر عادت تمھیں اچھی نہیں لگتی
تو پھر چھت سے تمھیں کرنا اشارے چھوڑ دیں گے ہم
پہلے مصرعے میں الفاظ غیر ضروری طور پر بے ترتیب ہیں. ہماری یہ اگر کہنے کی کیا ضرورت ہے، یوں بھی تو کہا جاسکتا تھا
اگر اچھی نہیں لگتی تمہیں عادت ہماری یہ
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ چھت سے اشارے کرنا والی عادت کس شریف انسان کو اچھی لگ سکتی ہے؟؟؟

تخیل میں ہمارے چاشنی کچھ بھی نہ آئے گی
ترے جب حسن کے کرنا نظارے چھوڑ دیں گے ہم
تخیل کی چاشنی کوئی چیز نہیں ... اس کے بجائے اشعار کی چاشنی کا ذکر کیا جا سکتا ہے.
دوسرے یہ کہ شخص واحد کے حسن کا نظارہ بھی واحد ہی ہوگا، سو دوسرے مصرع قرین محاورہ یوں ہوگا کہ جب ترے حسن کا نظارہ کرنا چھوڑ دیں گے ہم .... جو کہ ظاہر ہے اس زمین میں نہیں کہا جاسکتا.

ہمارے تھام لو اک بار گر تم پختگی سے ہاتھ
تو پھر بے کار اوروں کے سہارے چھوڑ دیں گے
محاورہ مضبوطی سے ہاتھ تھامنا ہے. اس طرح synonyms استعمال کر لے محاوروں کا من مانا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا.
دونوں مصرعوں میں بلا کی تعقید ہے.

زمانے میں عداوت اور نفرت پھیل جائے گی
محبت کرنا جب سارے کے سارے چھوڑ دیں گے ہم

سچی بات کہوں، تو اس غزل کو مشق کے لیے رکھ چھوڑیں. میں نے تفصیلی نکات صرف اس لیے لکھ دیے تاکہ آپ کو محاورے کی غلطیوں کا ادراک ہو اور آئندہ آپ ان نکات کی رعایت رکھ سکیں.
اس غزل کے مضامین کچھ ایسے خاص نہیں کہ اس پر مزید محنت کی جائے.
 

یاسر علی

محفلین
یہ بات بغیر تشریح کے تب ہی واضح ہو سکتی ہے اگر چاند سا کہا جاتا ...


بھائی یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ مطلق استخارہ کیا ہوتا ہے. میرا سوال تھا کہ وفا کے استخارے کیا ہوتے ہیں؟
ویسے آپ کی وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ استخارے کو صلوٰۃ الحاجات کے ساتھ خلط کر رہے ہیں :)
اور ایک لمحے کو دونوں کو ایک سمجھ بھی لیا جائے تو یہ تو بڑی ناشکری والی بات ہوگی کہ دعا قبول ہوتے ہی عبادت ادھوری چھوڑی دی جائے!!!


شمس و قمر اور دریائے دولت جیسی غالی چیزوں کے درمیان پھول جیسی معمولی شے کیوں گھسا رہے ہیں؟ وہ بھی بس ایک!!!
دریا کے دو ہی کنارے ہوتے ہیں، ان میں سے بھی ایک وقت میں ایک ہی کنارا پکڑا جا سکتا ہے ... "سبھی کنارے چھوڑنا" آپ کو کچھ عجیب سی بات نہیں لگتی؟؟؟


پہلے مصرعے میں الفاظ غیر ضروری طور پر بے ترتیب ہیں. ہماری یہ اگر کہنے کی کیا ضرورت ہے، یوں بھی تو کہا جاسکتا تھا
اگر اچھی نہیں لگتی تمہیں عادت ہماری یہ
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ چھت سے اشارے کرنا والی عادت کس شریف انسان کو اچھی لگ سکتی ہے؟؟؟


تخیل کی چاشنی کوئی چیز نہیں ... اس کے بجائے اشعار کی چاشنی کا ذکر کیا جا سکتا ہے.
دوسرے یہ کہ شخص واحد کے حسن کا نظارہ بھی واحد ہی ہوگا، سو دوسرے مصرع قرین محاورہ یوں ہوگا کہ جب ترے حسن کا نظارہ کرنا چھوڑ دیں گے ہم .... جو کہ ظاہر ہے اس زمین میں نہیں کہا جاسکتا.


محاورہ مضبوطی سے ہاتھ تھامنا ہے. اس طرح synonyms استعمال کر لے محاوروں کا من مانا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا.
دونوں مصرعوں میں بلا کی تعقید ہے.



سچی بات کہوں، تو اس غزل کو مشق کے لیے رکھ چھوڑیں. میں نے تفصیلی نکات صرف اس لیے لکھ دیے تاکہ آپ کو محاورے کی غلطیوں کا ادراک ہو اور آئندہ آپ ان نکات کی رعایت رکھ سکیں.
اس غزل کے مضامین کچھ ایسے خاص نہیں کہ اس پر مزید محنت کی جائے.
بہت بہت شکریہ سر!
راہنمائی فرمانے کا۔۔۔
 
Top