خورشید نیر
محفلین
اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزاراش ہے
ایک عالم ہے بے قراری کا
گویا موسم ہے آہ و زاری کا
جس کا دل ہے غموں کا شیدائی
اسے کیا شکوہ غم گساری کا
عشق میں دل تو ہو گیا ایسے
جیسے کاسہ کسی بھکاری کا
بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے
عشق کو کھیل اک مداری کا
ابتدا سے ہے دمِ آخر تک
زندگی نام بے قراری کا
ایک عالم ہے بے قراری کا
گویا موسم ہے آہ و زاری کا
جس کا دل ہے غموں کا شیدائی
اسے کیا شکوہ غم گساری کا
عشق میں دل تو ہو گیا ایسے
جیسے کاسہ کسی بھکاری کا
بے خبر تھے جو ہم سمجھتے تھے
عشق کو کھیل اک مداری کا
ابتدا سے ہے دمِ آخر تک
زندگی نام بے قراری کا